لاہور: مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کا کہنا ہے کہ مری سانحہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ ملک پہ صرف نالائقی ، نااہلی ، بے حسی اور ظلم مسلط ہے۔ سانحہ مری اور عوام کی مشکلات پر بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف کہنا تھا کہ مری سانحہ کے بعد یہ ثابت ہوگیا کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، اور یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ ملک پہ صرف نالائقی ، نااہلی ، بے حسی اور ظلم مسلط ہے۔شہبازشریف کا کہنا تھا کہ حکومت سانحہ مری سے متعلق سچائی اوراصل حقائق بتائے تاکہ اس کے مطابق حکمت عملی بنائی جاسکے، مری میں اب تک ہزاروں گاڑیوں کے پھنسے ہونے کی اطلاعات ہیں اور عوام پریشان ہیں، جس پر شدید تشویش ہے، حکومت بیانات کے بجائے مری اور دیگر علاقوں میں پھنسے عوام کو نکالنے کے لئے موثر اقدامات کرے، ان لوگوں کی رہائش اور خوراک کے انتظامات کے علاوہ محفوظ گھروں کو واپسی یقینی بنائی جائے۔اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ معصوم بچوں سمیت دیگر وفات پانے والوں کے اہل خانہ سے دلی ہمدردی ہے، یہ واقعہ ہمارے دل زخمی کرگیا ہے، بروقت اقدامات ہوجاتے اور انتظامی سوجھ بوجھ سے کام لیا جاتا تو اتنا بڑا حادثہ نہ ہوتا، حکومت بیان بازی اور عوام کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنی آئینی، قانونی اور انتظامی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔
Sunday, 9 January 2022
گاڑی برف میں پھنس جائے تو کیا کرنا چاہیے؟
مری میں شدید برفباری اور سیاحوں کے رش کے باعث برفانی طوفان میں پھنسے کئی شہری اپنی گاڑیوں میں موت کے منہ میں چلے گئے۔گاڑی برف میں پھنس جائے تو کیا کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے انسپکٹر جنرل (آئی جی) نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس انعام غنی کا بیان سامنے آیا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ کاربن مونوآکسائیڈمیں بونہیں ہوتی، اس کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے، کاربن مونو آکسائیڈ جلد موت کا سبب بن سکتی ہے۔نہوں نے بتایا کہ اگر گاڑی برف میں پھنس گئی ہے اور انجن چل رہاہے تو کھڑکی ہلکی سی کھولیں، گاڑی کے ایگزاسٹ سائلنسرپائپ سے برف صاف کریں۔خیال رہے کہ مری میں شدید برفباری اور سیاحوں کے رش کی وجہ سے صورتحال انتہائی خراب ہوگئی اور 20 سے زائد افراد کی گاڑیوں میں اموات کے بعد سیاحتی مقام کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا ہے۔
شدید برفباری میں پھنس جائیں تو کیا کریں؟
مری جیسے حالیہ حالات یا شدید سردی میں کسی مشکل کے دوران زندہ رہنے کے لیے چند اہم ہدایات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔اگر آپ کہیں شدید برفباری میں گاڑی میں پھنس جائیں تو کوشش کریں کہ گاڑی کا ہیٹر مسلسل نہ چلائیں یا اگر ہیٹر چلائیں تو پھر شیشے تھوڑے سے کھول کر رکھیں۔اگر گاڑی اسٹارٹ ہے اور اس کا ہیٹر چل رہا ہے مگر کسی وجہ سے سائلنسر برف سے ڈھک گیا ہے تو اندر موجود لوگ کاربن مونو آکسائیڈ سے چپ چاپ مر جائیں گے لہٰذا کوشش کریں کہ سائلنسر کے آگے سے رکاوٹ ہٹاتے رہیں۔اگر آپ ایک بند کمرے جیسے کے گیراج میں گاڑی کچھ عرصہ اسٹارٹ کیے رکھیں تو بھی یہی ہوگا مگر اکثر لوگوں کو اس کا نہیں پتا۔مونو آکسائیڈ بے رنگ و بے بو گیس ہے اور سریع الاثر یعنی خاموش قاتل ہے اور ہلاک کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتی۔جب بہت زیادہ برف پڑ جاتی ہے تو اس مقام پر آکسیجن لیول بھی بہت حد تک کم ہو جاتا ہے اس لیے گاڑی کے شیشے کھولنا لازمی ہے۔ایسے علاقوں میں بچوں کے ساتھ سفر پر جاتے وقت کھانے پینے کا کافی سارا سامان ساتھ ضرور رکھیں، ہر 2 گھنٹے بعد پانی کے 2 گھونٹ لازمی پئیں یا کچھ نہ کچھ ہر 2 گھنٹے بعد لازمی کھاتے رہیں۔سب سے ضروری اپنے آپ کو حرکت میں رکھیں تاکہ خون گردش کرتا رہے اور تھوڑی تھوڑی دیر کچھ لوگ اگر سو رہے ہیں تو ایک بندہ لازمی جاگتا رہے۔شدید سردی میں بلڈ سرکولیشن کافی سلو ہوتی ہے اس لیے حرکت لازمی رکھیں اور 2 گھنٹے سے زیادہ کسی کو نہ سونے دیں۔گاڑی میں بیٹھے ہوئے لوگ اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں میں حرکت رکھیں اور اگر سانس میں دشوادی ہو تو تھوڑی دیر باہر نکلیں اور واک کریں اور پانی پئیں، باقی کوشش کریں کہ حالیہ مری جیسے موسم میں بچوں کے ساتھ سفر نہ کریں۔
مری کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کے لیے کلیئر کر دیا گیا
شدید برفباری سے متاثرہ سیاحتی مقام مری کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کے لیے کلیئر کر دیا گیا ہے۔پنجاب پولیس کے ترجمان کے مطابق مری کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کے لیےکلیئر کر دیا گیا ہے، جھیکاگلی سے لوئر ٹوپہ ایکسپریس ہائی وے اور لارنس کالج والی روڈ ٹریفک کے لیے کلیئر کر دی گئی ہے جبکہ راولپنڈی اسلام آباد سے مری آنے والے راستوں پر پولیس تاحال موجود ہے جبکہ راستے آج بھی بند رہیں گے۔پولیس ترجمان کا بتانا ہے کہ مری سے رات گئے 600 سے 700 گاڑیوں کو نکالا گیا، تمام سیاحوں کو رات سے پہلے ہی محفوظ مقامات پر پہنچا دیا گیا تھا، 24 گھنٹوں کے دوران 500 سے زائد خاندانوں کو محفوظ مقام پر پہنچایا گیا۔ ترجمان پولیس کے مطابق مری میں شدید برفباری کی وجہ سے 20 سے 25 بڑے درخت گرے، وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایات پر اضافی نفری اور بھاری مشینری مری پہنچائی گئی جبکہ ریسکیو آپریشن میں راولپنڈی پولیس اور ٹریفک پولیس کے 1000 سے زائد اہلکار و افسران نے حصہ لیا۔دوسری جانب وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر شہباز گل نے بھی مری کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے اہم شاہراہوں کو ٹریفک کے لیے کلیئر کیے جانے کی تصدیق کی۔ شہباز گل نے ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے لکھا کہ مری کی تمام مرکزی شاہراہوں کو ٹریفک کے لیے کلیئر کر دیا گیا ہے، راولپنڈی پولیس، ضلعی انتظامیہ، پاک فوج کے جوان اور ہمارے مقامی لوگ رات بھر متحرک رہے اور مری سے رات گئے 600 سے 700 گاڑیوں کو نکالا گیا۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز مری میں شدید برفباری اور سیاحوں کے رش کی وجہ سے صورتحال انتہائی خراب ہوگئی تھی اور 20 سے زائد افراد کی گاڑیوں میں اموات کے بعد سیاحتی مقام کو آفت زدہ قرار دے کر ایمرجنسی نافذ کر دی گئی تھی۔
کراچی کے چڑیا گھر سےٹائیگر اور تیندوے کے بچے چوری
ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں سپر ہائی وے پر واقع نجی چڑیا گھر سے ٹائیگر اور تیندوے کے بچے چوری ہو گئے۔ گڈاپ پولیس نے بچے چوری ہونے کے واقعے کا مقدمہ درج کر لیا ہے اور ڈی ایس پی گڈاپ کنور آصف کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ گڈاپ سٹی تھانے میں چڑیا گھر کے جانوروں کے ڈاکٹر شاہد جلیل نے اس حوالے سے ایف آئی آر نمبر 19/22 زیرِ دفعہ 408 درج کرائی ہے۔پولیس کے مطابق ایف آئی آر میں مدعی نے کہا ہے کہ 6 جنوری کی صبح ڈیوٹی پر پہنچ کر انہوں نے چڑیا گھر کو چیک کیا تو پنجرے سے تیندوے کا ایک ماہ کا بچہ اور دوسرے پنجرے سے ٹائیگر کا 8 ماہ کا بچہ غائب تھا۔یف آئی آر میں مدعی کا بتانا ہے کہ پرانے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج چیک کی تو نائٹ سپروائزر ساجد علی جس کی ڈیوٹی رات 12 بجے سے صبح 9 بجے تک ہوتی تھی وہ رات 3 بجے سے غائب تھا۔مدعی مقدمہ ڈاکٹر شاہد جلیل نے ایف آئی آر میں الزام عائد کیا ہے کہ دونوں بچے نائٹ سپروائزر ساجد علی نے ہی چوری کیے ہیں۔پولیس نے مقدمہ درج کر کے شعبہ تفتیش کو منتقل کر دیا ہے جبکہ پولیس کی جانب سے ٹائیگر اور تیندوے کے بچوں کو بازیاب کرانے اور ملزم کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔
نواز شریف کی واپسی ایک گھمبیرمسئلہ
پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو عدالتی حکم پر ملکی سیاست کے لیے ’نا اہل قرار دیے جانے اور احتساب عدالت سے 10سال سے زیادہ کی قید سنائے جانے کے باوجود ان کو لوگوں کے دلوں سے نہیں نکا لا جا سکا۔ غیر جانبدارانہ و منصفانہ انتخابات ہوں تو آج بھی مسلم لیگ (ن) اکثریتی جماعت کے طور پر کامیاب ہو گی، یہی وجہ ہے کہ نواز شریف ان قوتوں کے ’’اعصاب ‘‘ پر سوار ہیں جنہوں نے عمران خان کے اقتدار کی ’’سیج ‘‘ سجانے کے لیے انہیں ملکی سیاست سے نکال باہر کرنے کا بندوبست کیا نواز شریف نے پچھلے دو سال سے زیادہ عرصہ سے لندن میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں آئے روز ان کی وطن واپسی کی افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں جس سے اقتدار کے ایوانوں میں اضطراب کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ حکومتی ترجمانوں کی’’ فوج ظفر موج ‘‘ کے شدید ردِعمل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان افواہوں نے بنی گالہ کے ’’مکین ‘‘ کو کس قدر پریشان کر رکھا ہے۔ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے ارکان کا اکٹھ ہو یا وفاقی کابینہ اجلا س، موضوعِ گفتگو نواز شریف ہی ہوتے ہیں۔ پورا اجلاس اس بحث کی نذر ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی نواز شریف کی ڈیل ہو گئی ہے؟ کیا نواز شریف پاکستان آ رہے ہیں ؟بعض لیگی رہنما بھی اکثر و بیشتر در فطنی چھوڑ دیتے ہیں کہ ’’ نواز شریف نے اپنا سامان باندھ لیا ہے اور وہ پاکستان آنے والے ہیں ‘‘۔ لندن سے آنے والی خبروں میں نواز شریف سے ’’غیر سیاسی شخصیات ‘‘ کی ملاقاتوں کی تصدیق نے اقتدار کے منصب پر فائز اعلیٰ شخصیت کی پریشانی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ یہ بات کہی جا رہی ہے کہ ’’ عمران خان کے سر سے دست شفقت ہٹا لیا گیا ہے ‘‘، اس مفروضے میں کس حد تک صداقت ہے فی الحال اس بارے میں کوئی بات حتمی طور پر نہیں کہی جا سکتی۔پچھلے چنددنوں سے وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدار ت منعقد ہونے والے ترجمانوں کے اجلاسوں میں نواز شریف کو ’’کاؤنٹر ‘‘ کرنےکی حکمتِ عملی ہی تیار کی جا رہی ہے، وزیراعظم نے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا ہے کہ’’ نواز شریف کی سزا ختم کرنے کے لیے راستے تلاش کئے جا رہے ہیں، ایک سزا یافتہ شخص کس طرح ملکی سیاست میں دوبارہ آسکتا ہے‘‘ ۔ عمران خان کی پریشانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ واقعی کسی سطح پر کچھ ہو رہا ہے جس کا انہیں علم ہے اور وہ اپنی بے بسی کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔سرکاری ترجمان بار بار کسی بھی قسم کی ڈیل ہونے کی خبروں کی تردید کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف آئےتو ایئر پورٹ پر اڈیالہ جیل کی قیدیوں کی وین ان کی منتظر ہو گی تو اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔جب سے 2022 کا سورج طلوع ہوا ہے، نواز شریف کی وطن واپسی کی افواہوں نے شدت اختیار کر لی ہے لیکن حکومت اور نہ ہی اپوزیشن (مسلم لیگ ن) نواز شریف کی واپسی کے بارے میں حتمی طور پر کوئی بات کہنے کی پوزیشن میں ہیں، سب مفروضوں کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ ’’لنگر گپ ‘‘ چل رہی ہے تو یہ درست ہو گا۔ اپوزیشن کی تمام تر سیاست کا دارو مدار نواز شریف کی واپسی پر ہے اور اپوزیشن حکومت کو نواز شریف کی واپسی کی تاریخیں دے کر ڈرا دھمکا رہی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ فی الحال نواز شریف وطن واپس نہ آرہے ہوں لیکن جس تسلسل سے حکومتی ترجمان بیانات دے رہے ہیں، اس سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نواز شریف کی واپسی ہے اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو ملک کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ حکومتِ پاکستان نواز شریف کو زبردستی پاکستان واپس لانے کے لیے برطانوی حکومت سے بڑے جتن کر چکی ہے لیکن تاحال اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید احمد نے ایک برملا اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ان کی حکومت کے لیے نواز شریف کو واپس لانا ممکن نہیں اب تو انہوں نے حاتم طائی کی قبر پر لات مار تے ہوئے نواز شریف کو لندن سے اسلام آباد کا یک طرفہ ٹکٹ دینے کی پیش کش کر دی ہے موجودہ حکومت نے نواز شریف اور مریم نواز سے ایک اور مذاق کیا ہے اور انہیں ’’صحت انصاف کارڈ‘‘ کا اہل قرار دیا ہے۔ حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ صحت کارڈ کا آغاز نواز شریف کے دور میں ہی ہوا تھا عمران خان کی سوئی ایک جگہ ہی اٹکی ہوئی ہے کہ نواز شریف، آصف علی زرداری سمیت پوری اپوزیشن چورہے۔ وزیر اعظم ایک قدم پیچھے ہٹ کر سیاسی کھیل کھیلنے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی بات نہیں بن پا رہی۔ نواز شریف اڈیالہ جیل میں ہوں یا آکسفورڈ اسٹریٹ کے ایون فیلڈ میں، وہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے اعصاب پر سوار ہیں۔ سر دست عمران خان شہباز شریف کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے اندر اسٹیبلشمنٹ سے معاملہ طے کرنے کی پوری صلاحیت موجود ہے اور اسٹیبلشمنٹ بھی ان کے لیے ہر وقت ہاتھ کھول کر کھڑی ہے لہٰذا حکومت شہباز شریف کی تیسری بار ’’جیل یاترا‘‘ کا سامان پیدا کر رہی ہے۔ حکومت کو اس روز سے کھٹکا لگا ہوا ہے جس رو زسے میاں شہباز شریف کی راولپنڈی میں ایک ’’غیرسیاسی شخصیت‘‘ سے ملاقات ہوئی ہے اور اس کے بعد لندن میں نواز شریف سے ’’غیر سیاسی شخصیات‘‘ کی ملاقاتوں نے حکومتی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے ۔ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ نواز شریف ہے جب تک ان کو جیل نہیں بھجوا دیا جاتا اس وقت تک ملک کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
چوری پکڑی گئی، سیاست گرم ہوگئی
الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی کی نامکمل رپورٹ میں ایسے خوفناک حقائق سامنے آئے ہیں کہ تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین عمران خان کے قانونی مستقبل پر نہایت سنجیدہ سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ 55 اکائونٹس چھپائے گئے، صرف 12ظاہر کیے گئے۔ وصول شدہ رقم اور ظاہر کردہ فنڈز میں 31 کروڑ روپے کا فرق ہے، بیرونی فنڈز اور کھاتوں تک رسائی نہیں دی گئی، آڈٹ رپورٹس ناقص پائی گئیں، آمدن و اخراجات کے تخمینوں میں بُعد پایا گیا، ذاتی ملازمین کے کھاتے علیحدہ ہیں۔ ابھی مزید تحقیقات باقی ہیں اور جانے فنڈ چوری کا کھرا کہاں جاکے رُکے، مقدمے کو 7 سال لگے، اسکروٹنی کمیٹی نے تین برس لیے، 150 پیشیاں ہوئیں اور گند ابھی پوری طرح سامنے نہیں آیا۔ ایک طرح سے تحریکِ انصاف اور اس کے قائد کی دیانت و امانت کے ڈھول کا پول کھل گیا ہے اور اخلاقی دیوالیہ نکل گیا ہے۔ چور چور کا شور مچانے والے اپنے ہی گھر کے نقب زن کے طور پر بے نقاب ہوگئے۔ پہلے تحریک انصاف کے الیکشن کمشنر جسٹس وجیہہ الدین کی پارٹی کے انتخابات میں دھاندلی کی رپورٹ پہ شریف النفس جج فارغ کردئیے گئے تھے، اب کپتان کرے بھی تو کیا فنڈز کی چوری دن دیہاڑے پکڑی گئی ہے۔ جتنا یہ کیس طول پکڑے گا، اتنا ہی گند اور اُچھلے گا۔ خاص طور پر غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے تو پولیٹکل پارٹیز ایکٹ 2002 بہت کڑا ہے، تحریک انصاف پر پابندی بھی لگ سکتی ہے اور اس کے چیئرمین کے دستخطوں سے جمع کرائے گئے، اقرار نامے غلط پائے گئے ہیں اور انہیں صادق و امین قرار دئیے جانے کا فیصلہ اُلٹ سکتا ہے۔ لوگوں نے بے پناہ چندہ دینے میں جس اندھے اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ اب چکنا چور ہوچکا ہے۔ اب الیکشن کمیشن مقدمہ چلائے گا یا مزید تفتیش کے لیے کوئی تحقیقاتی ادارہ مقرر کرے گا یا پھر فرانزک آڈٹ کرائے گا، تحریک انصاف پہ بجلی تو گرنی ہی گرنی ہے۔ البتہ مقدمے کو اگلے انتخابات سے بہت آگے تک طوالت ضرور دی جاسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ ہی کی بنیاد پر الیکشن کمیشن دونوں فریقین سے مزید وضاحتیں طلب کر کے جلد فیصلہ سنادے۔ ایسی صورت میں کوئی بھی انتخابی امیدوار اپنا سیاسی مستقبل ایک ایسی جماعت پر دائو پہ کیوں لگائے گا جس کا اپنا قانونی مستقبل مشکوک ہوگیا ہے۔الیکشن کمیشن کو وزرا کی دھمکیاں اور اس پر دبائو ڈالنے کی مہم کے پیچھے حکومت کا یہ خوف تھا کہ فارن فنڈنگ کیس کی تحقیقاتی رپورٹ تیاری کے آخری مرحلے میں تھی۔ اوپر سے وزیراعظم کی آمدنی میں سال بھر میں اتنا اضافہ ہوا ہے کہ ان کا ٹیکس ڈھائی لاکھ روپے سے چھلانگ مار کر تقریباًایک کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔ وزیراعظم بھی آئندہ تین ماہ کو اہم قرار دے رہے ہیں اور اپوزیشن بھی کسی سیاسی دھماکے کی منتظر ہے یا پھر خود کوئی بڑا دھماکہ کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ ایسے میں کوئی کیوں کسی سے ڈیل کرے گا جبکہ حالات سیاسی پردہ گرنے کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں۔ اور اس کی وضاحت ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں واشگاف کردی ہے اور وزیراعظم کا یہ کہنا کہ اگلے آرمی چیف کی تعیناتی یا موجودہ کی ایکسٹینشن کے بارے میں ابھی سوچا نہیں کہ نومبر ابھی بہت دور ہے۔اب جبکہ ضروری اشیاء کی مہنگائی 20 فیصد سے اوپر جاچکی ہے اور ملک بھر میں لوگ بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ کے ہاتھوں چلارہے ہیں، اپوزیشن نے بھی کمر کس لی ہے۔ سوموار سے شروع ہونے والا قومی اسمبلی کا اجلاس ہنگامہ خیز رہے گا۔ منی بجٹ پاس نہ ہوا تو حکومت تو گر جائے گی، لیکن ملک بدترین معاشی و مالیاتی بحران کی لپیٹ میں آجائے گا جسے سنبھالنے کی اپوزیشن میں سکت ہے نہ ریاست اور اس کے ادارے اس کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ ہر دو صورتوں میں بحران ہے کہ بڑھتا چلا جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے 27 فروری سے کراچی تا اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کر کے بڑا سیاسی فیصلہ کیا ہے اور ان کی حریف پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ششدر ہوکے رہ گئی ہے۔ پی ڈی ایم کا 23مارچ کو لانگ مارچ کا اعلان دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ ویسے بھی مقامی حکومتوں کے انتخابات کے پیش نظر اس کے مقدر میں ملتوی ہونا ہی لکھا ہوا تھا۔ پی ڈی ایم استعفوں اور دھرنے کی راہ سے نظام کے اندر رہ کر اپنی سیاسی بساط کو وسعت دینے کی جانب مراجعت کرگئی ہے اور اسے پختونخوا اور ضمنی انتخابات میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔ اور یہی بلاول بھٹو کا مولانا فضل الرحمٰن اور میاں نواز شریف سے اختلاف تھا۔ اب اسٹریٹ ایجی ٹیشن کی سیاست میں بلاول بھٹو نے پہل کی ہےجس کے نتیجے میں حکومت جاتی ہے یا نہیں، لیکن پیپلزپارٹی کو ملک بھر میں رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کا موقع ملے گا۔ غالباً محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلزپارٹی پھر سے عوامی جدوجہد کے راستے پہ واپس آگئی ہے اور اسے آئندہ انتخابات سے پہلے بڑے پیمانے پہ سیاسی موبیلائزیشن کا موقع ملے گا۔ پیپلزپارٹی کے سیاسی مستقبل کا دارومدار اسی پر ہے کہ تحریکِ انصاف اس کے لیےکتنی جگہ چھوڑتی ہے اور پیپلزپارٹی اپنی کھوئی ہوئی حمایت کو کتنا واپس حاصل کرتی ہے۔ شاید پی ڈی ایم کو بھی اپنے لانگ مارچ کی تاریخ فروری کے آخر تک آگے لانی پڑے گی۔ بہتر ہوگا کہ پی ڈی ایم پھر سے متحد ہوجائے، تنظیمی طور پر نہیں تو عملی طور پر ایسا ہوسکتا ہے۔صورت حال واقعی بہت بپھر گئی ہے۔ وقت اور طریقہ کار غیر معمولی اہمیت اختیار کرگیاہے۔ بلاول بھٹو نے اچھا وقت چنا ہے، پی ڈی ایم بھی ویسے ہی کرسکتی ہے، لیکن اپوزیشن کے دونوں دھڑوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ آئینی و قانونی اور جمہوری دائرے میں رہے۔ ذرا سا تجاوز جمہوریت اور سیاست کو بہا لے جاسکتا ہے اور چوتھے انتخابات کا انعقاد اور چوتھی اسمبلیوں کا قیام جانے کتنے عرصے کے لیے ملتوی ہو جائے۔ میری ذاتی رائے تو یہ رہی ہے کہ عمران حکومت کو مدت پوری کرنے دی جائے اور جمہوریت کی واپسی کے بعد قائم ہونے والی تیسری پارلیمنٹ اپنا دورانیہ پورا کرے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان جس تیزی سے اپنی سیاسی ساکھ اور جڑیں اکھاڑ رہے ہیں، اس کے پیش نظر سیاسی طوفان وقت سے پہلے ہی پھوٹ سکتا ہے۔ غالباً، اپوزیشن کی توقعات سے پہلے ہی وقت قریب آگیا ہے۔ اور وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔
عمران خان سیاسی لاوارث، حکومت کے قدم ڈگمگا رہے ہیں: خواجہ آصف
مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف نے وزیراعظم عمران خان کو سیاسی لاوارث قرار دے دیا۔سیالکوٹ میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومت کے قدم ڈگمگا رہے ہیں اور ان کے جانے کے اسباب پیدا ہو چکے ہیں۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہ لوگ تباہی کی تبدیلی لےکر آئے ہیں، پی ٹی آئی کے اپنے ووٹرز بھی ناکامی کا اعتراف کر رہے ہیں۔وزیراعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک سیاسی لاوارث ہیں جبکہ پی ٹی آئی کے زیادہ تر لوگ سیاسی مسافر ہیں اور پارٹیاں بدلنے والوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔مری میں پیش آنے والے افسوسناک سانحے پر گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما کا کہنا تھا کہ مری کے معاملے پر ایک وزیر نے بیان دیا تھا کہ ایک لاکھ گاڑیاں داخل ہوئیں، یہ ترقی کی علامت ہے، فواد چوہدری اس لیے بول رہے ہیں کہ وہ شیخ رشید کی جگہ لینا چاہتے ہیں۔رہنما ن لیگ کا کہنا تھا کہ 68 فیصد لوگوں نے کہا کہ مہنگائی کے ذمہ دار عمران خان ہیں، شہباز شریف کے دور میں ادویات مفت ملتی تھیں اور کینسر کا علاج مفت تھا۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ احتساب کےاداروں سے پوچھتا ہوں کہ جو آپ کر رہےہیں درست کر رہے ہیں، کیا کرپشن صرف ہم میں نظر آتی ہے، باقی دودھ کے دھلے ہیں، 185 کا ڈالر ہو گیا، جب 97،98 تھا تو ہمیں گالیاں دیتے تھے، ان حکمرانوں نے تو ملک گروی رکھ دیا ہے۔
دانتوں میں خلال جان لیوا امراض سے بچائے
خلال کرنا سنت نبوی ہے اور اس پر عمل کرنا آپ کو متعدد جان لیوا امراض سے بچا سکتا ہے۔تاہم خلال کرنے کو عادت بنالینا صحت مند زندگی گزارنے میں مدد دے سکتا ہے۔دانتوں کے مسائل، سانس میں بو سے نجات دلانے کے علاوہ بھی یہ عادت مختلف جان لیوا امراض سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
خون کی شریانوں سے متعلقہ امراض سے بچائے
دانتوں کے گرد موجود جھلی میں سوزش مسوڑوں کا ایسا نسگین انفیکشن ہے جو کہ نرم ٹشوز اور ہڈی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مسوڑے گھسنے لگتے ہیں، ڈانت ہلنے لگتے ہیں اور دانتوں کے درمیان خلا پیدا ہونے لگتا ہے۔ یہ مرض پلاک کے نتیجے میں لوگوں کو شکار بناتا ہے، اگر اس مرض کا علاج نہ کرایا جائے تو مسوڑوں کی شدید سوجن خون کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔ ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دانت کی جھلی میں سوزش میں امراض قلب کا خطرہ دوگنا بڑھ جاتا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ روزانہ برش سے پہلے ایک بار خلال کرنا اور دانتوں پر کم از کم 2 بار دو منٹ تک برش کرنے سے اس مسئلے سے بچا جاسکتا ہے۔
خواتین کو ہارمونز کے مسائل سے بچائے
خواتین کو زندگی کے مختلف حصوں میں ہارمونز کی تبدیلی کا سامنا ہوتا ہے، ہارمونز میں کمی بیشی پر منہ میں موجود بیکٹریا سے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ 2012 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ مسوڑوں کے امراض اور خواتین کے ہارمونز کے درمیان تعلق موجود ہے۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہارمونز میں تبدیلیاں منہ میں موجود جراثیموں کو بدلتی ہیں، ان کی نشوونما بڑھ جاتی ہے جو دوران خون میں شامل ہوکر ہڈیوں کے بھربھرے پن یا دیگر مسائل کو پیچیدہ بناسکتی ہے۔ محققین نے مشورہ دیا کہ خواتین خاص طور پر اپنے دانتوں کی برش اور خلال کی مدد سے اچھی نگہداشت کریں تاکہ مختلف طبی مسائل سے بچ سکیں۔
جسمانی وزن میں اضافہ روکنے میں ممکنہ مددگار
2010 کی ایک تحقیق کے مطابق دانتوں کی جھلی میں سوزش اور جسمانی وزن میں اضافے کے درمیان تعلق موجود ہے، آسان الفاظ میں دانتوں کی جھلی میں سوزش کے شکار افراد میں موٹاپے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ تاہم محققین یہ جاننے میں ناکام رہے کہ مسوڑوں کا مرض موٹاپے کا باعث بنتا ہے یا موٹاپا مسوڑوں کے امراض کا باعث بنتا ہے۔ تاہم محققین کا کہنا تھا کہ مسوڑوں میں سوجن کے نتیجے میں تکسیدی تناﺅ پیدا ہوتا ہے جو کہ موٹاپے کا باعث بن سکتا ہے۔
بلڈ شوگر لیول بہتر کرے
ذیابیطس کے مریض اگر مسوڑوں کے امراض کے شکار ہوجائے تو ان میں بلڈشوگر لیول کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کم ہونے لگتی ہے۔ منہ کی صفائی کا اچھا خیال رکھنا ذیابیطس ٹائپ ٹو پر مثبت اثرات مرتب کرسکتی ہے، ایک تحقیق کے مطابق مسوڑوں کے امراض سے بچنا ذیابیطس کے مریضوں میں A1C کی سطح کو کم کرکے گلوکوز میٹابولزم کو بہتر کرتا ہے۔ جیسا اوپر ذکر کیا جاچکا ہے کہ مسوڑوں کے امراض سے بچنے کے لیے خلال کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
جوڑوں کے امراض سے بچاﺅ
مسوڑوں کی شدید سوجن اور جوڑوں کے امراض کے درمیان تعلق موجود ہے۔ 2008 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ جوڑوں کے امراض کے شکار افراد میں دانتوں کی جھلی کی سوزش کے امراض کا امکان 8 گنا زیادہ ہوجاتا ہے۔
موسمی امراض سے تحفظ
نمونیا اور نظام تنفس کے دیگر امراض بیکٹریا اور پھیپھڑوں کے وائرل انفیکشن کے نتیجے میں لاحق ہوتے ہیں، جو کہ سردیوں یا فلو کے سیزن میں بہت عام ہوتا ہے۔ 2011 کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ جو مسوڑوں کے امراض کا باعث بننے والے بیکٹریا ہی سانس کی نالی پر حملہ آور ہوتے ہیں اور مختلف امراض کو زیادہ سنگین بنادیتے ہیں، اگرچہ دانتوں کی جھلی میں سوزش براہ راست پھیپھڑوں کے انفیکشن کا باعث نہیں بنتی مگر اس سے جڑے مسائل کو 7 گنا بڑھا ضرور دیتی ہے۔
سڈنی میں اسٹوکس کے ساتھ معجزہ، ٹنڈولکر نے قانون بدلنے کا مطالبہ کردیا
کرکٹ میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نت نئے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جس کے بعد قوانین میں ترمیم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور ایسا ہی ایک واقعہ آج ایشز سیریز میں پیش آیا جس پر سچن ٹنڈولکر نے نیا قانون متعارف کرانے کا مطالبہ کردیا۔انگلینڈ اور آسٹریلیا کے درمیان کھیلی جا رہی ایشز سیریز آسٹریلیا کی ٹیم ابتدائی تین ٹیسٹ میچز جیت کر پہلے ہی اپنے نام کر چکی ہے لیکن اس کے باوجود چوتھے ٹیسٹ میں ایسا واقعہ پیش آیا جو شائقین کو عرصے تک یاد رہے گا۔آسٹریلیا نے سڈنی میں کھیلے جا رہے چوتھے ٹیسٹ میچ میں عثمان خواجہ کی عمدہ سنچری کی بدولت پہلی اننگز 416رنز 8 کھلاڑی آؤٹ پر ڈکلیئر کردی۔انگلینڈ کی ٹیم جواب میں 36 رنز پر چار وکٹیں گنوا بیٹھی لیکن اس مرحلے پر بین اسٹوکس اور جونی بیئراسٹو نے عمدہ بیٹنگ سے انگلش ٹیم کو سہارا دیا۔تاہم یہ پارٹنرشپ اتنی طویل ثابت نہ ہوتی اگر میچ میں 57 کے اسکور پر یہ ڈرامائی صورتحال پیدا نہ ہوتی اور انگلش ٹیم 57 رنز پر 5 وکٹیں گنوا بیٹھی۔کیمرون گرین نے بین اسٹوکس کو گیند کرائی اور ایل بی ڈبلیو کی اپیل کی جس پر امپائرز نے انہیں آؤٹ قرار دیا لیکن اسٹوکس نے کوئی دیر کیے بغیر ہی ریویو لے لیا۔ریویو میں واضح تھا کہ گیند اسٹوکس کے بلے سے نہیں لگی بلکہ حیران کن طور یہ وکٹ سے ٹکرا کر وکٹ کے کیپر کے گلوز میں پہنچی لیکن فاسٹ باؤلر کی گیند پر بیلز اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں اور اسٹوکس کو ناٹ آؤٹ قرار دیا گیا۔اس حیران کن واقعے پر ٹوئٹر صارفین بھی ششدر ہیں جبکہ سابق عظیم بھارتی بلے باز سسچن ٹنڈولکر نے بھی نیا قانون متعارف کرانے کا بھی مطالبہ کردیا۔سچن ٹنڈولکر نے کہا کہ اگر گیند وکٹ پر لگنے کے باوجود بیلز نہ گریں تو ’ہٹنگ دی اسٹمپس‘ کے نام سے ایک قانون متعارف کرایا جانا چاہیے تاکہ باؤلرز کو بھی شفاف موقع مل سکے۔متعدد ٹوئٹر صارفین نے اسے معجزے سے تعبیر کیا جبکہ کچھ نے اسے بین اسٹوکس کی خوش قسمتی بھی قرار دیا۔انگلینڈ نے جونی بیئراسٹو کی سنچری کی بدولت میچ کے تیسرے دن کے اختتام پر 7 وکٹوں کے نقصان پر 258رنز بنائے ہیں جو 103رنز بنا کر وکٹ پر موجود ہیں۔
صبور علی کے مایوں میں احد رضا میر کے بغیر سجل علی کی شرکت پر مداح پریشان
بہن اداکارہ صبور علی کے مایوں کی تقریب میں سجل علی کی تنہا شرکت کے بعد لوگوں نے ان سے ان کے شوہر سے متعلق پوچھنا شروع کیا کہ احد رضا میر کہاں ہیں؟صبور علی کے مایوں کی تقریبات 5 اور 6 جنوری کی درمیانی شب شروع ہوئیں، جس کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوگئیں۔اداکارہ کے مایوں کی تقریب میں ان کی بڑی بہن سجل علی کو بھی دیکھا گیا مگر ان کے ساتھ ان کے شوہر احد رضا میر نظر نہیں آئے، جس وجہ سے ان کے مداح پریشان دکھائی دیے۔بہن کی شادی کی تقریبات میں تنہا شرکت کرنے پر جہاں سجل علی کے مداح پریشان دکھائی دیے، وہیں ان کے شوہر احد رضا میر کے مداح بھی تذبذب کا شکار نظر آئے۔سجل علی کو تقاریب میں تنہا دیکھنے کے بعد لوگوں نےمختلف سوشل میڈیا پیجز پر ان کی ویڈیوز پر کمنٹس کرتے ہوئے احد رضا میر سے متعلق سوالات کیے کہ وہ کہاں ہیں؟احد رضا کی غیر موجودگی پر لوگوں نے قیاس آرائیاں کرتے ہوئے کمنٹ کیے کہ ایک شادی ہو رہی ہے تو دوسری شادی ختم ہونے جا رہی ہے۔اسی طرح بعض لوگوں نے لکھا کہ شادی کی تقریبات میں بھی احد رضا شریک نہیں ہیں، اصل معاملہ کیا ہے، اس کا تو کسی کو علم نہیں مگر دعا ہے کہ سجل علی اور احد رضا میر کے درمیان سب کچھ ٹھیک ہو اور ان کی جوڑی سلامت رہے۔بعض لوگ اس بات پر برہم دکھائی دیے کہ لوگ جوڑے کے بارے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں—سجل علی نے بتایا تھا کہ ان کے اور احد رضا میر کے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں، البتہ وہ پہلے کی طرح اب ایک ساتھ دکھائی نہیں دیتے اور اس کی وجہ سے اختلافات نہیں۔سجل علی کے مطابق ماضی میں جب دونوں ایک ساتھ ہوتے تھے تو وہ انٹرویوز میں یا میڈیا کے سامنے اپنی ذات کے بجائے صرف احد رضا میر کی باتیں کرتی تھیں، جس وجہ سے اب وہ ایک ساتھ دکھائی نہیں دیتے۔کم از کم گزشتہ 4 ماہ سے دونوں نے ایک ساتھ تصاویر شیئر نہیں کیں اور نہ ہی انہیں ایک ساتھ کسی پروگرام یا تقریب میں دیکھا گیا ہے، دونوں نے مارچ 2020 میں شادی کی تھی۔اب سجل علی کی چھوٹی بہن صبور علی کی شادی کی تقریبات میں بھی احد رضا میر کو نہیں دیکھا گیا تو ان کے اور سجل کے درمیان اختلافات کی افواہیں تیز ہوگئیں۔