جیسا کہ اسوقت ملک بگر میں صحافیوں کو کئی مشکلات کیساتھ ساتھ انکی روزگار اور ملازمت کا مسلہ کئی کئی مہینوں سے تنخواہوں سے محروم در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ شعبہ صحافت میں ایک غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے اور مللک بگر کے بیشتر میڈیا اداروں نے اپنے متعدد ورکنگ جرنلسٹس کی چھٹیاں کہہ کر کرائی کہ آھادے تنخواہ پہ کام کرو گے ٹھیک بصورت دیگر گھر چلا جائیں۔ اس سلسلے میں تربت ست تعلق رکھنے والے صحافی سیٹیزن جرنلسٹ امجد بلوچ کا کہنا ہیکہ کہ ہم کل وقتی صحافی ہیں ہمیں پہلے بھی ادارے کی جانب سے ایسی مناسب تنخواہ نہیں ملتی تھی اب میڈیا مالکان یہی رونا رو رہے ہیں کہ ہمارے اشتہارات بند ہیں۔حکومت ہمارا مقروض ہے اور ہم بھی اتنا بڑا ادار چلا رہے ہیں ہم بغیر اشتہار کے ایک بہترین سسٹم نہیں چلا سکتے ہیں، اب ہم نے سوچا کہ اتنی خواری اور ذلالت سے بہتر یہی ہوگا کہ ہم سیٹیزن جرنلزم شروع کریں تا کہ معاشرے کے اصل مسائل کو کوریج دینے میں روز ایڈیٹر کی منت سماجت نہیں کرنا پڑتا ہے۔انکا کہنا تھا کہ اسوقت ہمارے زیادہ تر کولیگز سیٹزن جرنلزم کی طرف جارہے ہیں ، ہمیں چاہیے کہ اس مصیبت کے وقت تمام صحافی برادری اور صحافتی ادارے اس مسلے پہ ایک ہوکر میڈیا کو اس مشکل سے نکال لیں ۔اس سلسلے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلانز کنفیڈیریشن کے سربراہ ناصر نقوی کہتے ہیں کہ حکومت کو صحافتی اداروں کو جاری کئے جانے والے سرکاری اشتہارات کو ویج بورڈ کے علمدر آمد اور کارن صحافیوں کو تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کے ساتھ مشروط کردیا جانا چاہیے ۔ اس وقت قریبا دو درجن کے لگ بھگ ٹی وی اور ریڈیو چینلز کے کارکنان کو بر وقت تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جارہی ہے۔تنگدستی اور بے سرو سامان کے اس عالم میں بحض صاھیوں کو پر خطر جنگی حالات کی کوریج بھی کرنا پڑ رہی یے۔پاکستان غالبا دنیا کا واحد ملک ہئ جہاں لائف جیکٹ کے بغیر کام کرنے والے صحافی کے ہاتھ میں پکڑ ے ہونے دو لاکھ کے کیمرے کی انشورنس تو ہوتی ہے مگر اس کیمرے کے ذریعے ریکارڈنگ کرنے والے انسان کی انشورنس نہیں ہوتی۔ یا د رہے تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے لاہور کے ایک مقامی ٹی وی چینل کا یک کارکن خود کشی بھی کرچکا ہے ۔س صورتحال میں صحافت کی آزادی کو خطرات لا حق ہوتے جارہے ہیں۔ صحافتی اداروں کے مالکان سے مایوس ہوکر کئی صحافیوں نے اپنا پیٹ پالنے کے لیے سیاسی اور مذہبی جماعتوں اور خفیہ اداروں کی طرف دیکھنا شروع کردیا ہے۔ کالعدم عسکری تنظیموں کے جریدوں میں نام بدل بدل کر پاکستان کے کون کون سے نامور صحافی لکھ رہے ہیں۔
No comments:
Post a Comment
کمنٹ کرنے کاشکریہ