Sunday, 9 January 2022

مداح صبا قمر کے ساتھ 50 سال کی عمر میں شادی کا خواہاں


 زائدالعمری میں شادی کی خواہش کا اظہار کرنے والے مداح کو جواب دیتے ہوئے صبا قمر نے کہا ہے کہ انہیں ’قبول ہے‘ جملہ پسند ہی نہیں۔شوبز انسٹاگرام پیج نے یوٹیوبر رافع محمود کے سوالوں و جوابوں کا اسکرین شاٹ شیئر کیا، جس میں یوٹیوبر سے ایک شخص نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ زائد العمری میں صبا قمر سے شادی کرنا چاہیں گے۔یوٹیوبر رافع محمود نے حال ہی میں انسٹاگرام پر مداحوں کے سوالوں کے جوابات دیے تو ایک مداح نے ان سے سوال کرنے کے بجائے انہیں اپنی خواہش بتادی۔مذکورہ نامعلوم شخص نے رافع محمود کو بتایا کہ وہ اداکارہ صبا قمر سے 50 سال کی عمر میں شادی کرنا چاہیں گے مگر مسئلہ یہ ہے کہ شوبز انڈسٹری میں ان کی کوئی جان پہچان نہیں ہے۔ساتھ ہی مذکورہ شخص نے یوٹیوبر کو بتایا کہ وہ صبا قمر سے شادی سے متعلق بات مذاق میں نہیں کہ رہے بلکہ وہ اس معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہیں۔مذکورہ شخص کو جواب دیتے ہوئے یوٹیوبر رافع محمود نے اداکارہ صبا قمر کو بھی کمنٹ میں مینشن کیا۔یوٹیوبر نے صبا قمر کو مینشن کرتے ہوئے انہیں مہالکشمی قرار دیتے ہوئے اداکارہ کو تجویز دی کہ وہ اس بار شادی کی پیش کش سے متعلق سنجیدگی سے سوچیں اور فیصلہ کریں۔کئی لوگ اداکارہ کی جانب سے قبول ہے کو ناپسند کیے جانے پر خفا دکھائی دیےمداح کی خواہش اور یوٹیوبر کے جواب پر صبا قمر نے مختصر جواب دیا کہ ’کیا ہے کہ انہیں لفظ ’قبول ہے‘ پسند نہیں۔اداکارہ نے یوٹیوبر اور مداح کو دیے گئے جواب کا اسکرین شاٹ اپنی انسٹاگرام اسٹوری میں شیئر کیا، جسے بعد ازاں شوبز پیج پر شیئر کیا گیا۔صبا قمر کی جانب سے شادی کی پیش کش کرنے والے مداح کو دیےگئے جواب پر بھی لوگ نالاں دکھائی دیے اور کئی لوگوں نے شوبز انسٹاگرام پیج پر کمنٹ کرتے ہوئے اداکارہ کو تنقید کا نشانہ بنایا۔مداح صبا قمر کی جانب سے ’قبول ہے‘ لفظ کو ناپسند کرنے پر برہم دکھائی دیے اور کہا کہ اداکارہ کو عزت کی کیا پرواہ؟

گاڑی کے مسائل اور ان کے حل سے متعلق مکمل گائیڈ لائن





 سلیم بھائی ہر ماہ اپنی آمدن سے کچھ حصہ بچا کر الماری کے کونے میں رکھتے تھے اور ان کی اہلیہ نے اچھی خاصی بڑی رقم کی کمیٹی بھی ڈالی ہوئی تھی۔ جس دن بھابھی کی کمیٹی کھلی تو سارا گھر خوشی سے جھوم اُٹھا۔ جمع پونجی اور کمیٹی سے ملنے والی رقم سے اب اچھی سی سیکنڈ ہینڈ گاڑی خریدی جاسکتی تھی۔ کچھ دن کی محنت، آن لائن تلاش اور ہفتہ وار کار بازار کا چکر لگانے کے بعد اچھی کنڈیشن میں معمولی استعمال شدہ گاڑی گھر کے باہر پورے محلے کو دعوتِ نظارہ دے رہی تھی۔گاڑی تو خرید لی، اب اس کا خیال کیسے رکھنا ہے یہ فکر سلیم بھائی کو ستانے لگی تھی۔ گاڑی خریدنے میں ڈینٹر صاحب اور مکینک بھائی نے خصوصی تعاون کیا تھا لیکن اب سلیم بھائی ان دونوں پر مزید اعتماد کرنے سے کچھ گھبرا رہے تھے۔ دوست احباب نے بھی مکینک حضرات کی جانب سے اصل سامان نکال کر دو نمبر سامان لگانے جیسی کہانیاں سُنا سُنا کر خوب خوفزدہ کردیا تھا۔یہ فرضی کہانی کسی مخصوص سلیم یا کلیم بھائی کی نہیں بلکہ ہمارے معاشرے میں یہ ہر متوسط گھرانے کا قصہ ہے۔ اوسط آمدن والے گھرانوں کے لیے گاڑی خریدنا ایک خواب ہی ہوتا ہے اور غریب تو بہرحال ایسا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ بہت سے گھرانوں میں سارے بھائی مل کر گاڑی خریدنے کی خواہش رکھتے ہیں اور پھر محنت کا پھل ایک دن گاڑی کی صورت میں مل بھی جاتا ہے۔ عام طور پر پاکستان میں ہم بینک سے لیز شدہ گاڑی لینے سے گھبراتے ہیں اور اس کے پیچھے بہت سے عوامل ہوتے ہیں جن پر باقاعدہ بحث کی جاسکتی ہے۔بہت سے گھرانے اکثر خاص خاص مواقع پر یا کسی تقریب میں جانے کے لیے ہی گاڑی نکالتے ہیں۔ اس کی 2 وجوہات ہیں: ایک تو پیٹرول کا خرچہ کیونکہ سی این جی اب کم ہی دستیاب ہوتی ہے اور دوسرا یہ خیال کہ گاڑی جتنا چلے گی اتنا ہی کام نکالے گی۔گاڑی کی دیکھ بھال تو اس شخص کا بھی مسئلہ ہے جو روزانہ گاڑی چلانے کی استطاعت رکھتا ہے لیکن گاڑی کی روزانہ بدلتی کیفیت سے پریشان رہتا ہے۔ اب بدلتی کیفیت سے مراد یہ ہے کہ جیسے جیسے گاڑی چلتی ہے اس کے مختلف پرزے آواز کرنے لگ جاتے ہیں یعنی پرانے ہوکر تبدیلی یا مرمت کا خرچہ مانگتے ہیں۔پاکستان میں تیار ہونے والی گاڑیاں دنیا بھر میں دستیاب ماڈل کا سب سے بنیادی ورژن ہوتا ہے یعنی ان میں بہت سے ایسے فیچرز نہیں ہوتے جو کسی دوسرے ملک میں موجود بالکل ویسے ہی ماڈل میں مل جاتے ہیں۔ چلیں اس بحث کو بھی چھوڑتے ہیں۔ گاڑی خرید تو لی ہے اب اس کی دیکھ بھال کیسے کریں؟ اگر آپ بھی اسی مشکل سے گزر رہے ہیں تو ہماری گائیڈ لائن کو آخر تک پڑھ لیں امید ہے فائدہ ہوگا۔

زیرو میٹر گاڑی

'زیرو میٹر' یا بالکل نئی گاڑی کو احتیاط کے ساتھ چلایا جائے تو تقریباً ایک لاکھ کلومیٹر یا 3 سے 5 سال تک کوئی بڑا کام نہیں نکلتا۔ نئی گاڑی کے نخرے بھی کم اٹھانے پڑتے ہیں اور غیر ضروری چیک اپ کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ابتدائی 25 سے 30 ہزار کلومیٹر تو انجن آئل بھی کار ڈیلر شپ سے مفت تبدیل ہوتا ہے۔ اس کے لیے گاڑی کے ساتھ مینؤل بُک میں ٹوکن ملتے ہیں جن پر درج ہوتا ہے کہ کتنے فاصلے یا ماہ تک آپ آئل تبدیلی کی مفت سہولت سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ جب آپ آئل بدلوانے کمپنی کے منظور شدہ ڈیلر شپ کے پاس جاتے ہیں تو وہاں باقی چھوٹا موٹا چیک اپ بغیر کہے ہی کرلیا جاتا ہے۔ نئی گاڑی کی مخصوص شرائط کے ساتھ وارنٹی بھی ہوتی ہے۔

زیرو میٹر گاڑی کا خیال کیسے رکھیں؟

اگر آپ اتنی سکت رکھتے ہیں کہ مستقل ڈیلر شپ سے گاڑی کی دیکھ بھال کروائیں تو یہ آپ کی مرضی ہے۔ بہت سے لوگ ڈیلر شپ کے مہنگے کام کی وجہ سے گلی محلے کے مکینک سے رابطہ کرتے ہیں۔ آپ ڈیلر شپ کے پاس جائیں یا محلے کے مکینک کے پاس، بس یہ یاد رکھیں کہ جب تک گاڑی کی دیکھ بھال سے جڑے چند بنیادی معاملات سے آپ خود واقف نہیں ہوں گے تو نقصان کا اندیشہ ہمیشہ رہے گا۔نقصان کی 2 صورتیں ہیں: ایک تو یہ کہ گاڑی میں کوئی کام نکلا ہوگا یعنی کوئی پزرہ اپنا کام ٹھیک سے نہیں کررہا ہوگا یا پھر کوئی لیکیج ہو رہی ہے اور آپ اسے نظر انداز کررہے ہیں، اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کسی ایک پرزے کی خرابی دیگر ساتھی پرزوں کی کارکردگی کو بھی خراب کرسکتی ہے اور نتیجتاً چھوٹا سا کام بھی تاخیر کی وجہ سے بڑے کام میں تبدیل ہوچکا ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ مکینک برادری انتہائی غیر ذمہ دار واقع ہوئی ہے۔ اپنی گاڑی کے مرض کی تشخیص کے لیے آپ اگر مدد نہیں کریں گے تو مکینک بھائی کچھ بھی بدلنے یا خراب ہونے کا حکم صادر کردیں گے اور پھر آپ پریشان گھومتے پھریں گے کہ یار سب بدلوا دیا لیکن خرابی پھر بھی موجود ہے۔اس کی وجہ سادہ سی ہے آپ کے مکینک نے گاڑی کی خرابی کی غلط تشخیص کی ہے اور چونکہ آپ مرض سے متعلق درست آگاہی نہیں دے سکے تھے اس لیے آپ خود بھی قصور وار ہیں۔ اپنی گاڑی کی دیکھ بھال سے متعلق بنیادی معلومات ضرور رکھیں۔چلیے اب دوبارہ زیرو میٹر گاڑی کی طرف آتے ہیں۔ جب آپ ڈیلر شپ سے ٹوکن دے کر مفت انجن آئل تبدیل کروائیں گے تو خالی بوتل آپ کو ملے گی۔ اس بوتل پر درج ہوگا کہ کمپنی کون سے گریڈ کا انجن آئل آپ کی گاڑی کے لیے تجویز کرتی ہے۔ آئل کا گریڈ دراصل انجن کی ساخت اور ملک کے موسم کو مدِنظر رکھ کر تجویز کیا جاتا ہے۔اب اگر آپ ڈیلر شپ سے ہی مستقل آئل تبدیلی وغیرہ کا ارادہ رکھتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ بوتل پر درج آئل آپ متعلقہ پیٹرول پمپ سے تبدیل کروا سکتے ہیں۔ اگر آپ کا انجن آئل 5 ہزار کلو میٹر والا ہے تو کوشش کریں کہ کلومیٹر کا ہدف مکمل ہونے سے کچھ پہلے ہی آئل تبدیل کروا لیں کیونکہ یہ انجن کی صحت کے لیے بہتر ہوگا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ٹریفک جام اور اے سی کے ساتھ دیر تک گاڑی کا کھڑا رہنا میٹر پر ریکارڈ نہیں ہوتا لیکن انجن بہرحال چلتا رہتا ہے اس لیے آئل تھوڑا پہلے ہی تبدیل کروالیں۔آئل کے ساتھ آئل فلٹر ضرور تبدیل کروائیں کیونکہ فلٹر میں کافی پرانا آئل رہ جاتا ہے جو نئے آئل کو گندا کرنے کا سبب بھی بنے گا نیز یہ کہ فلٹر کی عمر بھی آئل کے ساتھ پوری ہوچکی ہے۔ انجن آئل عمومی طور پر ہزار سی سی گاڑیوں میں 3 لیٹر اور 1300 سے 1800 سی سی انجن میں 4 لیٹر تک ڈالا جاتا ہے۔ انجن آئل مکمل تصدیق کے ساتھ اتنا ہی ڈلوائیں جتنا مینؤل میں درج ہے۔ کم آئل ڈالنا انجن کے لیے نقصاندہ اور زیادہ آئل انجن کی مختلف سیلیں لیک کرنے کا سبب بنے گا۔ انجن میں اوپر کی طرف آئل چیک کرنے کی اسٹک موجود ہوتی ہے، اسٹک پر موجود نشان درست مقدار کے لیے بہتر رہنمائی کرسکتا ہے۔آئل فلٹر پر 600 یا 700 روپے ہی خرچ ہوتے ہیں۔ ڈیلر شپ انجن آئل اور فلٹر کے ساتھ انجن ایئر فلٹر بھی بدلتی ہے لیکن یہ فیصلہ آپ خود بھی کرسکتے ہیں، اگر انجن ایئر فلٹر آپ کو درست حالت میں محسوس ہو تو ایئر پریشر سے صاف کروا کر دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ آئل تبدیلی کے ساتھ اے سی فلٹر یعنی کیبن فلٹر پر بھی ہوا لگوا لیں اور اگر خراب دکھائی دے رہا ہو تو تبدیل کروا لیں۔ انجن ایئر فلٹر لگ بھگ 700 روپے اور کیبن اے سی فلٹر 400 روپے کا دستیاب ہوتا ہے۔اگر بیٹری پانی والی ہے تو پانی چیک کرلیں۔ ویسے آج کل معیاری ڈرائی بیٹری بھی باآسانی مل جاتی ہے اور بعض گاڑیوں میں ڈرائی بیٹری ہی لگی ملتی ہے۔ کوشش کریں کہ مہینے یا 6 ہفتوں میں ایک مرتبہ گاڑی ٹاپ واش کروالیں، مکمل سروس کی ضرورت کم کم ہی ہوتی ہے کہ جس میں اوپر اٹھا کر گاڑی کو صاف کیا جاتا ہے اور انجن بھی پانی سے دھویا جاتا ہے۔آئل تبدیلی کے وقت ایک نظر ریڈی ایٹر کے کولنٹ لیول پر بھی ڈال لیں۔ گاڑی کے انجن کو ٹھنڈا رکھنے والے نظام پر آگے تفصیلی بات ہوگی۔نئی گاڑی میں آخری جائزہ طلب چیز ٹائر کا پریشر ہے جو تمام ٹائروں میں برابر ہونا چاہیے۔ پنکچر والی دکان پر اب جدید میٹر والے ایئر پمپ ہوتے ہیں، لہٰذا وہاں آسانی سے یہ کام 20 سے 30 روپے میں ہوسکتا ہے۔15 سے 20 ہزار کلومیٹر پر بریک چیک اپ یا بریک سروس کروا لیں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مکینک بریک پیڈ کو کھول کر ریگ مال سے صفائی کرکے واپس لگا دے گا۔ اچھے والے بریک پیڈ تقریباً 40 سے 50 ہزار کلومیٹر چل جاتے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ بریک ڈسک پر کوئی نشان موجود نہ ہو۔ بریک اگر آواز کرے تو ضرور چیک کروالیں، ہوسکتا ہے کسی جگہ سے بریک پیڈ خراب ہوکر ڈسک سے ٹکرا رہا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بیئرنگ اور بریک ڈرم کسی جگہ سے معمولی لیک ہو جو بروقت نشاندہی سے باآسانی ٹھیک ہوجائے۔اگر گاڑی کا آر پی ایم کھڑی گاڑی میں اے سی کے ساتھ یا بغیر اے سی کے اوپر نیچے ہو اور گاڑی تھرتھرائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیوننگ اب ضروری ہوگئی ہے۔نئے ماڈل کی گاڑیوں میں ٹیوننگ کی ہر ماہ ضرورت نہیں ہوتی۔ نئی گاڑیوں میں ٹیوننگ سے مراد تھروٹل باڈی کا اسپرے سے صاف کرنا ہے۔ یہ کام خود بھی کیا جاسکتا ہے لیکن مکینک سے 300 یا 500 روپے میں کروانا بہتر ہے۔تھروٹل باڈی انجن کے ایئر فلٹر کے ساتھ انجن تک جانے والا پائپ کا دہانا ہوتا ہے۔ مکینک ایئر فلٹر کا باکس کھول کر پائپ علیحدہ کرتا ہے اور ڈبلیو ڈی اسپرے سے صاف کردیتا ہے۔ اس کے بعد ضرورت محسوس ہو تو کمپیوٹر منسلک کرکے انجن کیلی بریشن سیٹنگ ری سیٹ کردے گا۔ بس یہی وہ انجن ٹیوننگ ہے جو نئی گاڑیوں میں کی جاتی ہے۔2005ء سے پہلے کی گاڑیوں میں کاربوریٹر کی صفائی کی جاتی تھی جو نسبتاً لمبا کام ہوتا تھا۔ 2005ء کے بعد سے زیادہ تک گاڑیاں الیکٹرانک فیول انجیکٹر یعنی ای ایف آئی سے لیس ہوتی ہیں جس میں کاربوریٹر کی جھنجھٹ سے جان چھوٹ گئی ہے۔ گندہ ایئر فلٹر اور کاربن زدہ تھروٹل باڈی انجن کی کارکردگی کو خراب کرتی ہے اور یوں فیول کا خرچ بھی بڑھ جاتا ہے۔آٹو میٹک گیئر والی گاڑیوں میں 40 سے 50 ہزار کلو میٹر کے بعد ٹرانسمیشن آئل تبدیل کیا جاتا ہے جس کی قیمت 8 سے 10 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ خراب ٹرانسمیشن آئل گیئر باکس کو تباہ کرسکتا ہے۔ نئے انجن والی گاڑیوں میں ہائیڈرولک پاور اسٹیئرنگ کے بجائے موٹرائز اسٹیئرنگ استعمال ہوتا ہے لہٰذا اب اسٹیئرنگ آئل موجود نہیں ہوتا البتہ بریک آئل کا لیول برابر رکھنا چاہیے۔4 یا 5 سال میں بریک آئل میں معمولی کمی آسکتی ہے جسے ٹاپ اپ کرنا ہوتا ہے لیکن بغیر لیکیج کے بریک آئل لیول بار بار اور بہت زیادہ کم نہیں ہوتا۔ اگر بریک آئل کم ہو رہا ہے تو یقیناً کسی جگہ لیکیج ہورہی ہوگی جسے ٹھیک کروانا چاہیے۔ عمومی طور پر بریک ڈرم کی سیل سے آئل لیک ہوجاتا ہے جس کی مناسب قیمت پر مرمت کروائی جاسکتی ہے۔

سیکنڈ ہینڈ یا پرانی گاڑی کی دیکھ بھال کیسے کی جائے؟

جیسے جیسے گاڑی پرانی ہوتی جاتی ہے ویسے ویسے کام کی نوعیت بھی بدلتی جاتی ہے۔ پرانی گاڑی کی دیکھ بھال بھی اس لحاظ سے ضروری ہے۔ گاڑی چاہے نئی ہو یا پرانی اس کا انجن آئل مقررہ وقت پر ضرور بدلوائیں۔ اب آجاتے ہیں گاڑی کی عمر کے حساب سے نکلنے والے معمول کے کاموں کی طرف۔ پرانی گاڑیوں میں ٹائمنگ چین 80 ہزار سے ایک لاکھ کلومیٹر کے درمیان بدلوانا ہوتی تھی اب نئی گاڑیوں میں اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔

گاڑی کے ٹائر

ٹائر عمومی طور پر 50 ہزار سے 60 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد بدلوا لینے چاہئیں۔ اگر گاڑی کم استعمال ہوتی ہے لیکن ٹائر 5 سال مکمل کرچکے ہیں تو تبدیلی کا وقت ہوچکا ہے۔ یاد رکھیے کہ ٹائر کے اوپر وہ تاریخ درج ہوتی ہے جس سال وہ ٹائر فیکٹری سے تیار ہوا تھا۔ پرانا ٹائر جو بظاہر بھلے ہی بہت اچھی حالت میں نظر آئے لیکن ایکسپائر ہونے کی وجہ سے کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے اور اس وجہ سے گاڑی الٹ جانے کا اندیشہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹائر اگر کسی جگہ سے پھول جائے یا کوئی بڑا کٹ لگ جائے تو وہ مزید استعمال کے قابل نہیں رہتا۔ٹائر کا جو حصہ سڑک پر چلتا ہے وہ اگر سائیڈ یا درمیان سے گھسا ہوا محسوس ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خراب ہوچکا ہے اور اسے بدلوانا بہتر ہے۔کوشش کریں کہ چاروں ٹائر ایک ساتھ تبدیل کروائیں تاکہ وہ ایک ساتھ ہی خراب ہوں۔ 20 ہزار کلومیٹر کے بعد اگلے ٹائر پیچھے اور پچھلے آگے بدلوانا مناسب رہتا ہے۔ ٹائر کا عام طور پر جائزہ لیتے رہنا چاہیے کیونکہ اگر اگلے سسپنشن میں کوئی کام ہے یا گاڑی کی الائنمنٹ خراب ہے تو سب سے پہلے نشان ٹائر کے کنارے پر آجاتے ہیں۔ لمبے سفر پر نکلنے سے پہلے ٹائر کا لازمی جائزہ لیں اور ہوا برابر کروانا مت بھولیں اس سے نہ صرف ٹائر اچھی حالت میں رہیں گے بلکہ فیول کی بچت بھی ہوگی۔خراب یا کمزور ٹائر کے ساتھ تیز رفتاری سے پرہیز کریں اور طویل سفر پر مت جائیں۔ پرانا ٹائر مناسب قیمت پر فروخت ہوجاتا ہے، اس لیے بدلواتے وقت پرانے ٹائر کو بھاؤ تاؤ کرکے بیچا جاسکتا ہے۔ گاڑی میں اسی سائز کا ٹائر لگوائیں جو کمپنی نے لگا کر بھیجا تھا۔ چھوٹے یا بڑے سائز کا ٹائز بہت سی خرابیوں کا سبب بنتا ہے۔ بہت زیادہ وزن والے رم بھی اچھے نہیں رہتے لیکن اگر آپ کو شوق پورا کرنا ہے تو پھر قیمت کے لیے بھی تیار رہیں۔انجن کا کولنگ سسٹم

گاڑی کی صحت کا سب سے اہم جزو انجن کولنگ سسٹم ہے اور کولنگ سسٹم میں سب سے اہم ریڈی ایٹر ہوتا ہے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ گاڑی کے انجن کی زیادہ تک خرابیوں کی وجہ کولنگ سسٹم کی خرابی بنتی ہے اس لیے اپنی گاڑی کے کولنگ سسٹم پر ہمیشہ نظر رکھیں۔ریڈی ایٹر میں موجود کولنٹ طویل عرصے تک قابلِ استعمال رہتا ہے۔ کبھی بھی گرم انجن میں ریڈی ایٹر کا ڈھکن مت کھولیں کیونکہ پانی اچھل کر چہرہ یا ہاتھ کو زخمی کرسکتا ہے۔کبھی بھی گرم انجن میں ریڈی ایٹر کا ڈھکن مت کھولیں کیونکہ پانی اچھل کر چہرہ یا ہاتھ کو زخمی کرسکتا ہےہمیشہ ٹھنڈے انجن میں ریڈی ایٹر کا ڈھکن کھولیں۔ بار بار کولنٹ لیول چیک کرنا ضروری نہیں ہوتا لیکن مہینے میں ایک بار یا آئل تبدیل کرواتے وقت اپنے اطمینان کے لیے ضرور چیک کرلیں۔ ریڈی ایٹر کے ساتھ ریزرو کی بوتل کی نشان زدہ سطح تک کولنٹ ہونا ضروری ہے۔ بہت سی گاڑیوں میں باآسانی سطح دکھائی دیتی ہے اور کچھ گاڑیوں میں کچھ محنت کے بعد مل جاتی ہے۔ ریڈی ایٹر میں کولنٹ کی سطح ہمیشہ کسی وجہ سے کم ہوتی ہے اور اسے نظر انداز کرنا انجن کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ کولنٹ کم ہونے کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ کولنٹ کم ہونے کی صورت میں انجن کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور ڈیش بورڈ پر اس کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ کبھی بھی مخصوص سطح سے زیادہ ہیٹ کا کانٹا اوپر جانے کو نظرانداز مت کریں۔کولنٹ کی سطح کم ہو تو کیا کریں؟

پہلا:

سب سے پہلے کولنٹ کا جائزہ لیں، اگر اس کی رنگت زنگ زدہ محسوس ہو تو ریڈی ایٹر سروس کی ضرورت بھی ہوسکتی ہے۔ ریڈی ایٹر کی مرمت کرنے والا کیمکیل کے ذریعے صفائی کردے گا جس کے بعد تازہ کولنٹ اور پانی کا اچھی کوالٹی مکسچر استعمال کرنا بہتر ہے۔ نئی گاڑی میں 3 سے 4 سال تک اس کی ضرورت پیش نہیں آتی لیکن پرانی گاڑی میں خود ہی سروس کروا لینا بہتر رہتا ہے۔

دوسرا:

ریڈی ایٹر کے ڈھکن کی خراب ربڑ بھی پانی کی لیکیج کا سبب بنتی ہے جس کا نشان اوپر کی جانب دکھائی دے سکتا ہے لیکن لازمی نہیں کہ نشان موجود بھی ہو۔ عمومی طور پر ڈھکن تبدیل کرنے کی ضرورت کم ہی درپیش ہوتی ہے۔

تیسرا

ریڈی ایٹر کے پانی یا کولنٹ کو انجن میں سپلائی کرنے اور پھر واپس لانے کے لیے 3 سے 4 پائپ ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پائپ اکڑ جاتے ہیں اور ان کے دہانوں کے نزدیک لیکیج شروع ہوجاتی ہے۔ ایسا تقریباً 4 سے 5 سال پرانی گاڑی میں اکثر ہو ہی جاتا ہے۔ ریڈی ایٹر میں پانی کم ہونے کی ممکنہ وجہ کسی پائپ کا لیک ہونا بھی ہوسکتا ہے۔ لیک شدہ کولنٹ عموماً آس پاس نشان چھوڑ کر جاتا ہے جس سے متعلقہ پائپ کی لیکیج پکڑنا آسان ہوجاتی ہے۔

چوتھا:

مسلسل استعمال اور اگر ایک دو مرتبہ ریڈی ایٹر کم پانی کی وجہ سے انجن کی گرمی برداشت کرچکا ہے تو اوپر یا نیچے سے دانت نما مڑی ہوئی سیل کھل جاتی ہے جس سے پانی لیک ہوتا ہے اور کم ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں ریڈی ایٹر مکینک آپ کو مرمت کی آفر دے گا لیکن تبدیل کروانا زیادہ بہتر ہے۔

پانچواں:

انجن میں نیچے کی طرف واٹر باڈی یا واٹر پمپ موجود ہوتا ہے۔ یہ چھوٹا سا پمپ پانی انجن میں سپلائی کرنے کے لیے نصب ہوتا ہے۔ اگر کولنٹ یا پانی بہت زیادہ گرم ہوجائے تو واٹر پمپ کی سیل لیک ہوجاتی ہے اور کولنٹ ضائع ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ایسی صورت میں واٹر پمپ تبدیل کیا جاتا ہے۔ اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک لاکھ کلومیٹر یا اس کے آس پاس واٹر پمپ لیک ہونے کی شکایت عام ہے۔ واٹر پمپ کی لیکیج انجن کی تباہی کا سبب بنتی ہے اور اسے بالکل نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مکینک واٹر پمپ کی لیکیج گاڑی کے نیچے سے چیک کرے گا، اس کے علاوہ بونٹ کے اندورنی حصے پر اے سی بیلٹ کے عین اوپر کولنٹ کا نشان بھی واٹر پمپ کی لیکیج کی علامت ہوسکتا ہے۔

چھٹا:

ریڈی ایٹر کے پنکھے کو ڈائریکٹ نہیں کروانا چاہیے۔ مکینک یا الیکٹریشن کا یہ مشورہ انتہائی ناقص ہے۔ انجن کو ایک خاص حرارت پر پانی درکار ہوتا ہے اور ضرورت سے زیادہ حرارت کی صورت میں پنکھا خود بخود چل جاتا ہے اور مطلوبہ حد تک پانی ٹھنڈا کرنے کے بعد بند ہوجاتا ہے اور ضرورت پر نصب خودکار نظام کے تحت چلتا اور بند ہوتا رہتا ہے۔ کولنگ سسٹم میں کسی خرابی کی صورت میں ڈیش بورڈ پر حرارات کا کانٹا مطلوبہ حد سے اوپر جاتا ہے لیکن خرابی تلاش کرنے کے بجائے پنکھے کو ڈائریکٹ کرنے کی تجویز مکینک دیتا ہے۔ ایسا بالکل مت کریں اور خود کار سسٹم کو خراب مت کرنے دیں۔ اگر کبھی محسوس ہو کہ پنکھا نہیں چل رہا تو لازمی چیک کریں اور ایسی صورت میں گاڑی مت چلائیں۔

ساتواں:

اگر ریڈی ایٹر کا پانی بہت زیادہ ابل رہا ہو اور سطح پر چکنائی بھی آرہی ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انجن کی سیل یعنی گیس کٹ خراب ہوچکی ہے۔ پانی اور انجن آئل مکس ہو رہا ہے اور گاڑی فوری مرمت کے لیے مکینک کے پاس جائے گی اس سے پہلے کہ انجن آئل کی سطح اس حد تک گرجائے کہ انجن جام ہوجائے۔ گیس کٹ اڑنے کے بعد گاڑی دھواں بھی دے سکتی ہے۔ ریڈی ایٹر کے ڈھکن کے بغیر انجن اسٹارٹ کریں، پانی کچھ دیر میں گھومتا ہوا دکھائی دینا معمول کی بات ہے لیکن فوری ابلنا نہیں چاہیے۔انجن چیک لائٹ

نئے ماڈل کی تمام ہی گاڑیوں میں مختلف سینسر لگائے جاتے ہیں۔ سینسرز انجن میں کسی خرابی کی صورت میں ڈیش بورڈ پر ٹمٹما اٹھتے ہیں۔ ڈیش بورڈ پر کسی بھی نشان کے اچانک ٹمٹمانے یا جل بجھ ہونے کو بالکل نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پیلے رنگ کا نشان انجن چیک لائٹ کہلاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ انجن کسی مشکل کا شکار ہے۔انجن چیک لائٹ اس وقت بھی جل اٹھتی ہے کہ جب ناقص پیٹرول کی وجہ سے گاڑی مس فائر کرے۔ یعنی جھٹکا لے یا مسنگ کرے۔ انجن چیک لائٹ کو مکینک گاڑی سے کمپیوٹر منسلک کرکے ایرر کوڈ کے ذریعے پڑھ سکتا ہے اور پھر متعلقہ خرابی کو فوری دُور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف گاڑیوں میں مختلف سینسر ہوتے ہیں جو کمپیوٹر منسلک کرکے پڑھے جاسکتے ہیں۔ جاپانی امپورٹڈ گاڑیوں میں سینسر زیادہ ہوتے ہیں یہاں تک کے ٹائر کی ہوا ظاہر کرنے والے سینسر بھی مل جاتے ہیں۔

انجن کی طاقت کم محسوس ہو تو کیا کریں؟

انجن اگر کسی دباؤ کا شکار ہو تو گاڑی گھٹی گھٹی سی محسوس ہوتی ہے۔ نئی گاڑیوں میں کیٹالیٹک کنورٹر موجود ہوتا ہے جس کا کام انجن سے نکلنے والی گیس کو کافی حد تک فلٹر کرنے کے بعد سیلنسر کے ذریعے خارج کرنا ہے۔ پاکستان میں پیٹرول بہت زیادہ معیاری نہیں ملتا لہٰذا لگ بھگ ایک لاکھ کلومیٹر کے بعد کیٹالیٹک کنورٹر چوک ہونے کی وجہ سے انجن کی طاقت کم ہوتی محسوس ہوگی۔اب بہت سی ورک شاپس پر اس کنورٹر کو صاف کرنے کی مشینیں موجود ہیں۔ کیٹ کنورٹر کے اندر شہد کی مکھی کے چھتے جیسا پتھر کا بنا فلٹر ہوتا ہے جو چوک ہوجاتا ہے اور اسے کیمیکل کے ذریعے پریشر سے صاف کردیا جاتا ہے۔ بہت سے ممالک میں ایک مخصوص مدت کے بعد کیٹالیٹک کنورٹر کو صاف یا تبدیل کروانا لازمی ہوتا ہے۔ گاڑی کو ٹینک سے انجن تک فیول سپلائی کرنے کے لیے فیول پمپ نصب ہوتا ہے۔ فیول پمپ اگر خراب ہوجائے تو بہت تنگ کرتا ہے۔فیول پمپ کی خرابی کو پکڑنا کافی مشکل ہوتا ہے کیونکہ یہ چلتے چلتے اچانک بند ہوجاتا اور پھر دوبارہ چلنا شروع ہوجاتا ہے۔ فیول پمپ کی خرابی کی صورت میں گاڑی کبھی اسپیڈ اٹھانے سے انکار کردیتی ہے اور کبھی ٹریفک جام میں بلاوجہ بند ہوجاتی ہے اور کچھ دیر میں اسٹارٹ بھی ہوجاتی ہے، یعنی فیول پمپ گرم ہوتے ہی کچھ دیر کے لیے کام بند کردیتا ہے اور پھر چلنے لگتا ہے۔ فیول پمپ تک رسائی چونکہ اتنی آسان نہیں ہوتی لہٰذا مکینک پہلے دیگر تمام ہی چیزوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بہت ہی محنت کے بعد مجرم پکڑا جاتا ہے۔ فیول پمپ کا خراب ہونا یا اس کے فلٹر کا چوک ہونا پرانی ہوتی گاڑی میں معمول کی بات ہے۔ انجن کی طاقت میں کمی کی ایک وجہ اسپارک پلگ میں کچرا یا خرابی بھی ہوسکتی ہے۔ مکینک باآسانی پلگ کھول کر اس کی صحت کا جائزہ لے سکتا ہے۔

گاڑی دھواں کب دیتی ہے؟

آپ کی مکمل صحت مند گاڑی دھواں نہیں دے گی۔ سیلنسر سے صرف گیس کا اخراج ہوگا جو دکھائی نہیں دیتا اور بدبو میں کچا کچا یاں آنکھوں میں چبھن والامحسوس نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ سیلنسر کے دہانے کو تیل سے تر بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر پیٹرول یا سی این جی پر چلنے والی گاڑی دھواں دے تو ضرور کوئی گڑبڑ ہے، ممکن ہے کہ گیس کٹ کی خرابی سے لے کر فیول انجیکٹر تک کوئی چیز درست کام نہیں کر رہی لہٰذا مکینک سے رابطہ کریں۔ دھواں دینے والی گاڑی زیادہ انجن آئل استعمال کرتی ہے جس کے نتیجے میں کسی بھی وقت انجن آئل مخصوص سطح سے کم ہوکر انجن خراب کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔گاڑی کے نیچے تیل یا پانی کی لیکیج کے دھبے کو نظر انداز مت کریں۔ لیکیج کی وجہ تلاش کریں اور زیادہ خرابی سے پہلے ہی چند سو روپے میں ٹھیک کروا لیں۔ گاڑی کے اگلے حصے یعنی گڑھوں سے ٹکرانے کے بعد بہت زیادہ آواز قابلِ توجہ ہوتی ہے جس کے سبب کو تلاش کرنا ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں سڑکیں کافی حد تک خراب ہیں اس لیے گاڑی کے اگلے یا پچھلے حصے میں کام نکل ہی آتا ہے اور یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں بس تھوڑا خرچہ کرنا پڑتا ہے۔اسٹیئرنگ میں سے کسی قسم کی آواز کو فوری چیک کروانا چاہیے۔ اگر کوئی لائٹ اچانک بند ہوگئی ہے تو بلب فیوز ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا ایک اور سبب فیوز کا خراب ہوجانا بھی ہوسکتا ہے۔ انجن کے ساتھ فیوز باکس نصب ہوتا ہے جسے پانی سے بچانا چاہیے۔گاڑی کا اے سی

گاڑی کے اے سی کو درست حالت میں رکھنا ہے تو سردی ہو یا گرمی اے سی کو کچھ وقت ضرور چلائیں۔ اگر شدید گرمی میں کولنگ کم محسوس ہو تو ایک وجہ ڈیش بورڈ کے نیچے نصب کنڈینسر کا چوک ہونا بھی ہے۔ دوسری صورت میں اے سی کی کولنگ میں کمی گیس کی لیکیج کے سبب بھی ممکن ہے لہٰذا صرف اوپر سے گیس بھروا لینا مسئلے کا مستقل حل نہیں بلکہ لیکیج کی وجہ تلاش کرنا ضروری ہے۔ جب بھی گاڑی کی سروس کروائیں تو ریڈی ایٹر کے ساتھ لگے بیرونی کنڈینسر پر پریشر سے پانی لگوا لیں تاکہ مٹی صاف ہوجائے اور اے سی کو سانس ملے۔ گاڑی کو بند کرنے سے پہلے اے سی بند کرلیں تاکہ کمپریسر پر اچانک جھٹکا نہ لگے۔

گاڑی سے مختلف آوازیں کیوں آتی ہیں؟

خراب سڑکیں اور اس سے بڑھ کر خراب طریقہ استعمال گاڑی کے مختلف حصوں کو گھسا دیتا ہے۔ گاڑی چوں چوں کی آواز کرتی ہے۔ اس کا حل ڈینٹر بھائی دے سکتے ہیں لیکن محتاط ہوکر ان کے پاس جائیں۔ سیٹیں اگر ڈھیلی ہوں تب بھی آواز آتی ہے۔ بس یہ یاد رکھیں پرانی گاڑی نے چیخ و پکار کرنی ہی ہے اس لیے کچھ نا کچھ برداشت بھی کرنا ہوگا۔ سردیوں میں صبح صبح گاڑی اسٹارٹ کریں تو اچانک اونچی چر چر کی آواز آتی ہے جو کچھ دیر میں بند بھی ہوجاتی ہے۔ یہ آواز بیلٹ کی ہوسکتی ہے جسے مزید بیئرنگ خراب کرنے یا ٹوٹ جانے سے پہلے ہی بدلوا لینا چاہیے۔ڈیڑھ لاکھ سے 2 لاکھ کلومیٹر تک چلی گاڑی پرانی گاڑی کہلائے گی اور پرانی گاڑی کا خیال بھی زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ پاکستان میں تیار ہونے والی چھوٹی گاڑیوں کے انجن کو ڈیڑھ سے 2 لاکھ کلومیٹر اور 1300 سے 1800 سی سی کی گاڑیوں کے انجن کو اچھے استعمال کی صورت میں 3 سے ساڑھے 3 لاکھ کلومیٹر باآسانی چلنا چاہیے۔گاڑی کے دورازے کے لاک، شیشے اوپر نیچے کرنے کے ہینڈل یا بٹن اور اس طرح کے دیگر مسائل ہوتے ہی رہتے ہیں۔ پاکستان میں بمپر پر نشان کے بغیر شاید ہی کوئی گاڑی ہو لیکن پریشان مت ہوں یہ معمولی سی قیمت پر ٹھیک بھی ہوجاتا ہے۔

گاڑی کا عمومی خیال کیسے رکھیں؟

انسان نے ہر دور میں اپنی سواری کا خاص خیال رکھا ہے پھر چاہے وہ سواری کے لیے گھوڑا ہو یا اونٹ۔ سواری سے انسیت شاید اس کی جبلت میں شامل ہے۔ گاڑی کا خیال رکھنے کے لیے کسی بڑے خرچے کی ضرورت نہیں ہے بس چند چیزوں کا دھیان رکھیں۔گاڑی کے ڈیش بورڈ والے خانے کو دستانے رکھنے کے لیے بنایا جاتا ہے لیکن آپ ایک چھوٹی سی نوٹ بک قلم کے ساتھ یہاں رکھ سکتے ہیں جس میں گاڑی کے انجن آئل، ٹرانسمیشن آئل سمیت دیگر مرمتی کام کی تفصیل درج کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ گاڑی بیچ بھی دیں گے تو یہ معلومات نئے مالک کے کام آسکیں گی۔ گاڑی کے تمام فلوڈز کو چیک کرتے رہنا چاہیے اسی لیے ہر فلیوڈ کے ساتھ اس کا لیول گیج دیا جاتا ہے۔گڑھوں اور خراب راستوں پر گاڑی مت دوڑائیں۔ گاڑی کی مکمل باڈی اور ٹائر سمیت ہر چیز کو ہی اس سے نقصان پہنچتا ہے۔ خراب راستوں کو آرام سے بھی طے کیا جاسکتا ہے۔گاڑی بند کرتے ہوئے اے سی اور لائٹس ضرور بند کردیں تاکہ دوبارہ اسٹارٹ کرتے ہوئے سسٹم پر دباؤ نہ پڑے۔گاڑی اسٹارٹ کرنے کے بعد ایک آدھا منٹ انتظار کرکے گیئر ڈالیں۔ اس دوران انجن آئل کو سرکولیٹ کرنے کا وقت مل جائے گا اور انجن کی زندگی بڑھ جائے گی۔گاڑی کے اندورنی کارپٹ کو گندا ہونے سے بچائیں، چھت اور ڈیش بورڈ پر گندے ہاتھ مت لگائیں۔ اگر گاڑی میں بچے کچھ نا کچھ گراتے رہتے ہیں تو کارپٹ کے اوپر سیٹ کور والے سے ریگزین شیٹ لگوائی جاسکتی ہے جس کی مالیت 3 سے 4 ہزار روپے تک ہوتی ہے۔ اگر ممکن ہو تو زیادہ گندگی کی صورت میں 4 سے 5 سال میں ایک مرتبہ ڈیٹیلنگ یا انٹر کلیننگ کروالیں جس کی مالیت 2 یا 3 ہزار روپے تک ہوگی۔پرندوں کی گندگی کو فوری صاف کردیں کیونکہ اس میں تیزابیت ہوتی ہے جو رنگ خراب کرنے یا نشانات کا سبب بنتی ہے۔کوشش کریں کہ صاف مائیکرو فائبر کپڑے سے گاڑی صاف کی جائے اور مہینے 2 مہینے میں سروس اسٹیشن سے ٹاپ واش کروا لیا جائے۔ اس سے گاڑی کی اندرونی اور بیرونی صفائی زیادہ بہتر ہوجاتی ہے۔بار بار بریک کا استعمال اور جھٹکے سے گاڑی چلانا اچھی عادت نہیں ہے۔ گاڑی کے ایکسیلیٹر کو اتنا ہی دبائیں جنتی رفتار کی ضرورت ہے۔ بہتر طرزِ ڈرائیونگ فیول کی بچت اور گاڑی کی زندگی بڑھانے کا سبب بنتا ہے۔چھوٹے موٹے کام ساتھ ساتھ کرواتے رہیں، تھوڑا وقت نکال کر تکلیف سے بچا جاسکتا ہے۔ کام ایک ساتھ کروانے کے لیے مسائل جمع مت کریں۔ مکینک کی جس حد تک ممکن ہو نگرانی کریں کیونکہ اکثر اوقات بہت سے کام کیے بغیر مکینک سب اچھا ہے کی آواز لگا کر دوسرا کام پکڑ لیتا ہے۔گاڑی کو درست حالت میں رکھنے کے لیے طویل عرصے تک بند مت رکھیں بلکہ چلاتے رہنا بہتر ہوتا ہے۔

بارش میں احتیاط

بارش کے موسم سے قبل وائپر چیک کرلیں۔ نئے وائپر ایک ہزار سے 1500 روپے میں مل جاتے ہیں اس لیے جب ربڑ خراب ہوجائے تو وائپر تبدیل کروا لیں۔ بارش کے موسم میں بریک کا استعمال کم سے کم کرنا چاہیے تاکہ سڑک پر پھسلن سے نقصان نہ ہو۔ گاڑی کے انجن میں عمومی طور پر پانی ایئر فلٹر کے راستے جاتا ہے جو عام طور پر کاروں میں اوپر کی جانب ہوتا ہے۔ پانی کے ریلے میں گاڑی بھگانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سے پانی ایئر فلٹر کے راستے انجن میں جائے گا اور سب تباہ کر دے گا۔اسی طرح پانی کا ریلا الیکٹرانک سسٹم کو بھی خراب کرسکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ زیادہ پانی والے مقامات سے گریز کریں اور اگر اچانک سامنا ہو بھی جائے تو وہاں آہستہ آہستہ گزرنے کی کوشش کریں۔ گاڑی کے اندر اگر پانی آجائے تو اسٹارٹ مت کریں بلکہ مکینک تک کسی طرح لے جائیں تاکہ نقصان کا زیادہ اندیشہ نہ رہے۔ پانی اسٹیئرنگ باکس سمیت اور بھی بہت سے آلات کو خراب کرسکتا ہے اس لیے جس قدر ہوسکے اتنی احتیاط کرنی چاہیے۔

کابلی سامان کیا ہوتا ہے؟

گاڑی کے بہت سے اوریجنل پارٹس بعض اوقات مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتے۔ کابلی سے مراد اسکریپ شدہ گاڑیوں کے پارٹس ہیں جو کافی مرتبہ بہت اچھی حالت میں مل جاتے ہیں۔ طویل عرصے تک صرف افغانستان سے اسکریپ شدہ گاڑیاں آتی رہیں، اسی وجہ سے ان گاڑی کے سامان کا نام کابل سے منسوب کرتے ہوئے کابلی رکھ دیا۔کابلی سامان بیچنے والے یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایکسیڈنٹ کی شکار گاڑیوں کا بچا کچھا سامان ہے جو درست حالت میں تھا لیکن بہرحال استعمال شدہ سامان کی اصل صورتحال کیا ہوگی یہ کہنا مشکل ہوتا ہے۔ جہاں ہے اور جیسا ہے کی بنیاد پر اچھی طرح پرکھ کر کابلی سامان خریدا جاتا ہے جس کی زیادہ سے زیادہ گارنٹی کوئی ایک دو دن چیک کرنے کی دیتا ہے۔یہاں مکینک کا تجربہ ہی کام آتا ہے لیکن اس تجربے کے فیل ہونے کے امکانات 50 فیصد تک ہوتے ہیں۔ بجٹ اور سامان کی دستیابی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کابلی سامان خریدنا چاہیے۔ کابلی بمپر، لائٹس اور شیشے مناسب قیمت میں بہت بہتر رہتے ہیں لیکن انجن کا سامان، گیئر وغیرہ خریدتے ہوئے احتیاط ضروری ہے۔میں نے اس تحریر کے ذریعے وہ تمام معلومات آپ تک پہنچانے کی کوشش کی ہیں جن کا علم ایک عام گاڑی کے مالک کو ضرور ہونا چاہیے۔ ان معلومات سے نہ صرف آپ کسی بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں بلکہ گاڑی کی خرابی سے ہونے والی تکلیف سے بھی خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ یہ تمام معلومات تجربے کا نچوڑ ہیں جو صرف خرابی کا اندازہ لگانے میں معاون ہوسکتی ہیں یا یوں کہہ لیں گاڑی کے ڈاکٹر یعنی مکینک کو خرابی سمجھانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔فواد احمدنیو ٹی وی میں کرنٹ افیئرز کے پروگرام کی میزبانی کرتے ہیں۔

 


دانتوں پر جمے پلاک اور ٹارٹر کو صاف کرنا چاہتے ہیں؟

 

لاک یا دانتوں اور مسوڑوں کی اوپری سطح پر جم جانے والی گندگی کی روک تھام گھر میں آسانی سے ممکن ہے۔اگر کوئی دانتوں کی صفائی کا خیال نہ رکھے تو یہ گندگی بدل کر زرد۔ بھورے مواد کی شکل اختیار کرلیتی ہے جسے ٹارٹر بھی کہا جاتا ہے۔جب لوگ کھانا کھاتے ہیں تو منہ میں موجود بیکٹریا کھانے میں موجود کاربوہائیڈریٹس کو ٹکڑے کرکے ایسڈ میں بدل دیتے ہیں جو کھانے کے ذرات اور لعاب دہن سے مل کر پلاک بناتا ہے۔دانتوں پر برش اور خلال کو اکثر کرنا پلاک اور ٹارٹر بننے کے عمل کی روک تھام کرتا ہے، تاہم ٹارٹر کو دانتوں سے صاف کرنا مشکل ہوتا ہے اور کئی بار اس کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاکر ہی صفائی کرانا پڑتی ہے۔منہ کی ناقص صفائی سانس میں بو، دانتوں کی فرسودگی اور مسوڑوں کے امراض کا بھی باعث بنتی ہے، حالیہ تحقیقی رپورٹس میں مسوڑوں کے امراض اور سنگین امراض جیسے نمونیا، دماغی تنزلی اور امراض قلب کے درمیان تعلق کو بھی دریافت کیا گیا ہے۔
اگر آپ پلاک کو دانتوں سے ہٹانے اور ٹارٹر کو بننے سے روکنا چاہتے ہیں چند آسان طریقے گھر میں آزما سکتے ہیں۔
دانتوں کی اچھی صفائی کی مشق
دانتوں کی اچھی صفائی کو عادت بنانا پلاک اور ٹارٹر کو صاف کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، امریکن ڈینٹل ایسوسی ایشن (اے ڈی اے) نے فلورائیڈ ٹوتھ پیسٹ سے دن میں 2 بار برش کرنے کا مشورہ دیا ہے جبکہ دن میں ایک بار خلال کرنے کا بھی کہا جاتا ہے۔ پہلے خلال کرنے سے دانتوں کے درمیان اور ایسے مقامات جہاں برش کی رسائی مشکل ہوتی ہے، سے خوراک کے ذرات کی صفائی ہوتی ہے، خلال کے بعد ٹوتھ برش سے دانتوں کی سطح پر پلاک کو صاف کیا جاسکتا ہے۔ دانتوں کی موثر صفائی کے لیے دانتوں کے پچھلے حصے سے صفائی کا آغاز کریں، مختصر گول دائرے میں برش کریں، اوپری دانتوں کے سامنے اور پیچھے والے حصے پر برش کریں، یہی عمل نچلے دانتوں پر دہرائیں۔دانتوں کے خلال اور برش کے بعد ماؤتھ واش سے کلیاں کریں، عام طور پر ماؤتھ واش میں فلورائیڈ موجود ہوتا ہے جو پلاک کے خلاف اضافی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
بیکنگ سوڈا سے برش کریں
بیکنگ سوڈا سے برش کرنا پلاک کی صفائی کا محفوظ اور موثر ذریعہ ہے، بیکنگ سوڈا دانتوں کی سطح کو نقصان پہنچائے بغیر پلاک کو دانتوں کی سطح سے ہٹاتا ہے۔ تحقیقی رپورٹس میں عندیہ ملا ہے کہ بیکنگ سوڈا والے ٹوتھ پیسٹ منہ میں پلاک کی سطح کو گھٹانے میں روایتی ٹوتھ پیسٹ کے مقابلے میں زیادہ موثر ہوتے ہیں۔ بیکنگ سوڈا دانتوں کو اس کیمیائی عمل سے تحفظ فراہم کرتا ہے جو سطح پر کیلشیئم کو ختم کرنے کا باعث بنتا ہے۔کھانے میں موجود کاربوہائیڈریٹس منہ میں pH کی سطح کو بہت تیزی سے کم کرتے ہیں جس سے تیزابی ماحول اس کیمیائی عمل کا باعث بنتا ہے۔ بیکنگ سوڈا اس کیمیائی عمل کی سطح کو کم کرتا ہے جس سے منہ کے اندر pH کی سطح کو متوازن رکھنے میں مدد ملتی ہے اور دانتوں کی سطح کو نقصان سے بچانا ممکن ہوتا ہے۔بیکنگ سوڈا جراثیم کش ہوتا ہے جو دانتوں کی فرسودگی سے بھی بچاتا ہے، تحقیقی رپورٹس سے معلوم ہوا ہے کہ بیکنگ سوڈا منہ میں جراثیموں کی سطح کو نمایاں حد تک کم کرسکتا ہے۔
ناریل کے تیل سے کلیاں
تیل سے کلیاں کرنا بیکٹریا کی صفائی اور منہ کی صحت میں بہتری کا ایک آسان ذریعہ ہے۔ ناریل کا تیل اس حوالے سے بہترین ہے کیونکہ ورم کش اور اینٹی آکسائیڈنٹس سے بھرپور ہوتا ہے جبکہ اس میں لارک ایسڈ بھی ہوتا ہے جو جراثیم کش خصوصیات رکھتا ہے۔ 2015 میں مسوڑوں کے امراض کے شکار 60 افراد پر ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ناریل کے تیل کی کلیاں کرنا دانتوں پر پلاک کی شرح میں 50 فیصد تک کمی لاسکتا ہے۔تحقیق میں شامل افراد کے مسوڑوں کے امراض کی شرح میں بھی نمایاں کمی آئی اور محققین کا ماننا تھا کہ اس کی وجہ پلاک کی سطح میں کمی آنا ہے۔اس مقصد کے لیے ایک کھانے کا چمچ ناریل کا تیل گرم کرکے منہ میں بھرلیں اور منہ کے اندر 5 سے 10 منٹ تک پھیریں اور پھر اسے تھوک دیں، مگر سنک میں تھوکنے سے گریز کریں کیونکہ پائپ بند ہوسکتے ہیں۔ناریل کے تیل کے علاوہ زیتون کا تیل، بادام کا تیل اور تلوں کا تیل بھی موثر ثابت ہوسکتا ہے۔
روک تھام
پلاک اور ٹارٹر کو دانتوں پر جمنے سے روکنے کے لیے دن میں ایک بار خلال اور 2 بار فلورائیڈ پیسٹ سے برش کریں، اس کے علاوہ دانتوں کو اکثر چیک کرانا اور صفائی بھی اس مسئلے سے بچنے میں مدد دے سکتا ہے۔ڈاکٹر پورے منہ کا معائنہ کرکے دانتوں کی فرسودگی اور مسوڑوں کے امراض کی علامات کو دیکھ سکتے ہیں، ڈانتوں کی سطح پر پلاک یا ٹارٹر کو ہٹا سکتے ہیں اور دانتوں کی فرسودگی کی روک تھام میں بھی مدد دے سکتے ہیں۔غذائی تبدیلیاں بھی پلاک اور ٹارٹر کے اجتماع کی روک تھام میں مدد دے سکتا ہے، یعنی چینی اور تیزابی غذاؤں کا استعمال کم کردیں، اس سے دانتوں کی فرسودگی کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔دانتوں پر پلاک اور ٹارٹر سے بچنے کے لیے کوکیز، کیک، ٹافیاں، دانتوں کی سطح پر جمنے والی میٹھی غذائیں جیسے سفید ڈبل روٹی، آلو کے چپس اور کچھ خشک میوہ جات وغیرہ، میٹھے مشروبات، ترش جوس۔

’بابر ہمیشہ تگڑی جگہ ہاتھ مارتا ہے‘ کرکٹر کی تصاویر پر تبصرے


 قومی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی ایک خاتون کے ساتھ کچھوائی گئی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد لوگ اس پر جہاں تنقیدی تبصرے کر رہے ہیں، وہیں بعض افراد اس پر مزاحیہ کمنٹس بھی کرتے دکھائی دیے۔بابر اعظم کی ایک خاتون کے ہمراہ دو تصاویر 6 جنوری کو ابتدائی طور پر ٹوئٹر پر وائرل ہوئیں تو لوگوں نے ان کی تصاویر پر حیرانی کا اظہار کیا۔وائرل ہونے والی تصاویر میں قدرے زائدالعمر اور فربہ خاتون کو قومی کرکٹر کا تھری پیس لباس سیٹ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ایک تصویر میں جہاں خاتون قومی کرکٹر کا لباس ٹھیک کرتی دکھائی دیں، وہیں دوسری تصویر میں دونوں ایک ساتھ فوٹوگرافی کے لیے کھڑے دکھائی دیے۔مذکورہ تصویر پر لوگوں نے طرح طرح کے کمنٹس کیے اور جہاں لوگوں نے سچائی جانے بغیر قومی کرکٹر پر تنقید کی، وہیں بعض افراد نے بابر اعظم پر غصہ کرنے کے بجائے انہیں تجویز دی کہ وہ پینٹ شرٹ پہننے کے بجائے پاکستان کا قومی لباس شلوار قمیض پہنا کریں۔بعض افراد نے بابر اعظم کے لباس پر کمنٹ کرتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے کافروں والا لباس پہن رکھا ہے، انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد تبلیغی جماعت میں بھی جانا ہے۔وہیں کچھ لوگوں نے تصویر پر بابر اعظم کی شادی کی قیاس آرائیاں بھی کیں اور لکھا کہ شاید مذکورہ خاتون وہیں ہیں، جن سے قومی کرکٹر نے رواں برس شادی کی تھی، تاہم اس حوالے سے کوئی تصدیقی بات نہیں کہی جاسکتی۔ساتھ ہی کچھ لوگوں نے کمنٹ کیے کہ مذکورہ خاتون ٹیلر ہیں، جنہوں نے بابر اعظم کا لباس تیار کیا۔اسی طرح کسی نے کمنٹ کیے کہ ان کے خیال میں مذکورہ خاتون اسٹائلسٹ ہیں جو قومی کرکٹر کو کسی تقریب کے لیے تیار کر رہی ہیں۔ایک مداح نے کمنٹ کیا کہ ’بابر اعظم ہمشیہ تگڑی جگہ ہاتھ مارتا ہے‘۔بابر اعظم کی تصاویر جس خاتون کے ساتھ وائرل ہوئیں، وہ دراصل متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی ریاست دبئی کی فیشن اسٹائلسٹ اور میک اپ آرٹسٹ ابیہا مامون ہیں جو کہ پاکستانی نژاد ہیں۔بابر اعظم کی مذکورہ تصاویر ابیہا مامون نے اپنے انسٹاگرام پر 26 نومبر 2021 کو شیئر کی تھیں۔فیشن اسٹائلسٹ نے بابر اعظم کی تصاویر شیئر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ قومی ٹیم کے کپتان کے ساتھ کام کرنے پر خوش ہیں۔ان کی جانب سے شیئر کی گئی مزید تصاویر میں انہیں اور ان کی ٹیم کی دیگر ارکان کو بابر اعظم کو میک اپ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ابیہا امام قومی کرکٹر سے قبل بھی متعدد شوبز و فیشن کی پاکستانی و بھارتی شخصیات کے ساتھ کام کر چکی ہیں اور چند بولی وڈ اور پاکستانی فلموں کے علاوہ ریئلٹی شوز کے لیے بھی بطور اسٹائلسٹ کام کر چکی ہیں۔



دنیا کی مختصر ترین پرواز کا دورانیہ دنگ کردے گا


 یوں تو عموماً ہوائی طیاروں سے طویل سفر ہی منسوب ہوتا ہے، لیکن دنیا میں کچھ ایسے مقامات بھی ہیں جہاں پرواز کا دورانیہ اور فاصلہ حیران کن طور پر انتہائی کم ہے۔مگر اسکاٹ لینڈ کے2 جزائر کے درمیان پرواز کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا جس کا دورانیہ اتنا کم ہے کہ اکثر افراد کو طیارے پر سوار ہونے میں اس سے زیادہ وقت لگ جاتا ہے۔لوگن ایئر کی پرواز کوئی پرسکون تجربہ نہیں کیونکہ یہ ایک چھوٹا طیارہ ہے جس کے کیبن میں 8 مسافر ہی سفر کرسکتے ہیں۔انجن کا شور مسلسل کانوں میں گونجتا رہتا ہے اور ٹوائلٹ جانے کا سوال ہی نہیں کیونکہ وہ موجود ہی نہیں۔مگر اس پرواز کی خاص بات سفر کا دورانیہ ہے۔اسکاٹ لینڈ کے شمالی حصے میں واقع جزیرے ویسٹرے اور پاپا ویسٹرے درمیان چلنے والی پرواز کو گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز نے دنیا کی مختصر ترین شیڈول پرواز قرار دے رکھا ہے۔اس کا سفر محض 1.7 میل کا ہوتا ہے اور ہوا کا رخ موزوں ہو اور سامان کم ہو تو یہ فاصلہ محض 53 سیکنڈز میں طے ہوسکتا ہے، مگر زیادہ تر 2 منٹ کا وقت درکار ہوتا ہے۔یہ پرواز دن میں 2 بار اڑان بھرتی ہے اور موسم گرما میں سیاح کافی تعداد میں اس میں سفر کرتے ہیں تاکہ دنیا کی مختصر ترین پرواز کے ساتھ پاپا ویسٹرے کی سیر بھی کرسکیں۔یہ پرواز بریٹین نورمین بی این 2 آئی لینڈر طیارے پر ہوتی ہے جس میں مسافروں کے لیے 2، 2 نشستوں کی 4 قطاریں ہیں۔مگر مسافر کو اپنی مرضی سے نشست پر بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ عام طور پر طارے کے ارگرد وزن کے مطابق ان کو بٹھایا جاتا ہے۔ویسے اس سفر کا اصل آغاز کریکوال سے ہوتا ہے جہاں سے وہ 15 منٹ میں ویسٹرے پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے پاپا ویسٹرے تک جاتی ہے۔



لارڈ نذیر احمد پر بچوں پر جنسی حملے کا جرم ثابت

 برطانوی عدالت نے پاکستانی نژاد سابق برطانوی پارلیمنٹیرین کو دو بچوں کے خلاف جنسی جرائم کا مجرم قرار دے دیا۔رپورٹ کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کی رپورٹ میں کہا گیا کہ عدالت نے لارڈ نذیر احمد کو ایک لڑکے سے بدفعلی اور ایک لڑکی کا ریپ کرنے کی کوشش کا مجرم قرار دیا۔یارک شائر کے علاقے روتھرہم میں واقع شیفلڈ کراؤن کورٹ نے بار بار جنسی استحصال سے متعلق کیس کی سماعت کی، یہ واقعات تب پیش آئے جب سابق رکن پارلیمنٹ نوجوان تھے۔64 سالہ نذیر احمد نے الزامات سے انکار کردیا۔مقدمے کی سماعت کرنے والے جج لاوینڈر لارڈ نذیر احمد کو سزا سنانے کا فیصلہ بعد میں کریں گے۔پراسیکیوٹر ٹام لیٹل نے عدالت کو بتایا کہ لارڈ نذیر احمد نے 1970 کی دہائی کے آغاز میں ایک لڑکی کا ریپ کرنے کی کوشش تھی، اس وقت مدعی علیہ کی عمر 16 یا 17 سال تھی اور وہ لارڈ نذیر سے بہت کم عمر تھیں۔پراسیکیوٹر نے کہا کہ اسی عرصے کے دوران سابق رکن پارلیمنٹ نے 11 سال سے کم عمر ایک لڑکے پر بھی جنسی حملہ کیا تھا۔ٹام لیٹل نے کہا کہ نذیر احمد کا دعویٰ ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات ’بدنیتی پر مبنی افسانہ‘ ہیں لیکن دونوں متاثرین کے درمیان فون پر ہونے والی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ’بنائے گئے یا من گھڑت‘ الزامات نہیں ہیں۔عدالت کو بتایا گیا کہ خاتون کی جانب سے متاثرہ مرد کی ای میل کے جواب میں کال کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ ’میرے پاس بچوں کے جنسی استحصال کرنے والے شخص کے خلاف ثبوت ہیں‘۔یاد رہے کہ 2019 میں لارڈ نذیر اور ان کے دو بھائیوں پر کم سن بچوں سے جنسی جرائم کا الزام عائد کیا گیا تھا، ملزمان نے تمام معاملات میں قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی تھی۔لارڈ نذیر پر 11 سال سے کم عمر کے ساتھ سنگین جنسی زیادتی اور اسی لڑکے کے ساتھ بدتمیزی کا الزام لگایا گیا تھا، 16 سال سے کم عمر لڑکی سے دو مرتبہ زیادتی کی کوشش کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں، یہ تمام الزامات 1971 سے 1974 کے درمیان لگائے گئے تھے۔ان کے بھائی محمد فاروق پر ایک لڑکے سے چار مرتبہ نامناسب رویہ اختیار کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، ان شمارات میں سے ایک کا تعلق 1960 کی دہائی کے آخر سے ہے جب یہ لڑکا 8 سال سے کم عمر کا تھا، ان کے دوسرے بھائی محمد طارق پر 11 سال سے کم عمر کے لڑکے کے خلاف دو بے بنیاد حملے کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔اس مقدمے کی سماعت اس سال جنوری میں شروع ہونا تھی لیکن جیوری کے مقدمات میں کووڈ-19 کی پابندیوں کی وجہ سے اسے جنوری 2021 میں دوبارہ سماعت تک کے لیے ملتوی کردیا گیا۔



پاکستان میں مہنگا دودھ سستا کیسے ہوسکتا ہے؟

 یہ ہے کراچی کے نواحی علاقے میں واقع اکرم* کا ڈیری فارم جہاں نیلی راوی بھینس کو آج ہی لایا گیا ہے۔ ساہیوال سے


کراچی تک کے 24 گھنٹے سے زائد کے سفر نے ان بھینسوں کو تھکا دیا ہے۔ ان میں نیلی پری کہلانے والی بھینس سب سے زیادہ خوبصورت اور صحت مند دکھائی دے رہی ہے مگر سفر کی تھکان نے اس کو بھی بے حال کیا ہوا ہے۔نیلی پری یہ نہیں جانتی کہ اس اردو کے سفر کے اختتام پر اس کے لیے انگریزی کا سفر شروع ہونے والا ہے۔ نیلی پری نے کراچی پہنچ کر ایک صحت مند کٹے کو جنم دیا اور ساتھ ہی دودھ کی پیداوار کا عمل بھی شروع ہوگیا۔ نیلی پری کو باڑے میں ایک جگہ سنگل سے باندھ دیا گیا ہے اور اب اپنی باقی ماندہ زندگی کے 270 دن وہ اسی سنگل سے بندھے ہوئے گزار دے گی۔ یہ بھینس اب روزانہ دودھ دے کر کراچی کی مِلک سپلائی چین کا حصہ بن جائے گی۔ کراچی میں چونکہ پراپرٹی بہت مہنگی ہے اس لیے باڑے کے مالک جانور کو کھلی جگہ فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔نیلی پری کو جس جگہ باندھا گیا ہے وہاں پر صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام موجود نہیں ہے۔ اس کے گوبر کو ٹھکانے لگانے کا محض اتنا بندوبست ہے کہ دن میں ایک مرتبہ اسے باڑے کے سامنے جمع کردیا جاتا ہے جہاں مکھیاں مچھر اور مختلف کیڑے مکوڑے اس گوبر پر پلتے ہیں اور وہاں سے اڑ کر اس نیلی پری پر آن بیٹھتے ہیں۔ ایک جگہ بندھے رہنے اور تعفن زدہ ماحول نے نیلی پری کو بہت پریشان کیا ہوا ہے۔ گرمیوں میں ان جانوروں کو کسی قسم کی راحت پہنچانے کا انتظام نہیں کیا جاتا جبکہ بارشوں میں صورتحال مزید خراب ہوجاتی ہے۔ گندگی، تعفن اور حشرات کی وجہ سے جانور تناؤ کا شکار رہتا ہے۔کراچی کے علاقے بھینس کالونی میں ایک شخص دودھ کو اسٹیل کے ٹب میں منتقل کر رہا ہے۔ —

گائیں اور بھینس کو پانی بھی ان کی مرضی کے مطابق فراہم نہیں کیا جاتا۔ جانور کو صبح اور شام کے اوقات میں پانی دیا جاتا ہے جبکہ اس کے سامنے ڈالے جانے والے چارے کی بھی جانچ نہیں کی جاتی ہے کہ وہ کتنا چارہ کھا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جس جانور کو 16 سے 18 لیٹر دودھ دینا تھا، وہ 10 لیٹر سے بھی کم دودھ دینے لگتا ہے۔ بعدازاں ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی اس کی دودھ دینے کی صلاحیت کم سے کم ہوتی جاتی ہے۔کراچی میں مجموعی طور پر روزانہ 45 لاکھ لیٹر دودھ کی پیداوار ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ شہرِ قائد میں کھلے دودھ کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ کراچی میں ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن دودھ کی فی لیٹر قیمت 155 روپے سے زیادہ بڑھانا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق دودھ کی قیمت کے 3 اہم جزو ہیں:پہلا: جانور کی خریداری پر آنے والی لاگت، جانور کی قیمت میں یومیہ کمی اور اموات، ٹیکس ملا کر فی جانور کا یومیہ خرچہ 522 روپے بنتا ہے۔دوسرا: فارم کی منیجمنٹ پر آنے والی لاگت، یوٹیلیٹی بلز، ویکسینیشن اور پانی کی یومیہ لاگت 139.55 روپے بنتی ہے جبکہ دودھ دینے والے جانور پر خوراک کا یومیہ خرچہ 549 روپے بتایا جاتا ہے۔اس طرح ایک دودھ دینے والے جانور پر یومیہ 1241 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک دودھ دینے والے جانور پر ہونے والے اخراجات کے عوض اس سے اوسطاً 8 لیٹر دودھ حاصل کیا جاتا ہے۔ ان تمام اخراجات کو دودھ کی مقدار سے تقیسم کیا جائے تو دودھ کی قیمت 155 روپے بنتی ہے۔ تاہم سندھ لائیو اسٹاک نے کراچی شہر کے لیے دودھ کی فی لیٹر قیمت کا تخمینہ 133روپے لگایا ہے۔تیسرا: ایک اور معاملہ جو دودھ کی قیمت میں اضافے کا سبب ہے، وہ نہ صرف دودھ کی جانوروں کی سپلائی چین کو بُری طرح متاثر کررہا ہے بلکہ گوشت کی سپلائی چین پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ بھینس کالونی کراچی میں ایک دودھ دینے والے جانور سے 270 دن تک دودھ لیا جاتا ہے۔ جس کے بعد اسے ذبح ہونے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ نیلی پری کی طرح بھینس کالونی میں جانوروں کو لانے کے بعد ایک ہی سنگل سے 270 روز تک باندھ کر دودھ حاصل کرنے کے بعد قصاب کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے سربراہ شاکر عمر گجر کے مطابق کراچی میں سالانہ 14 لاکھ جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے جن میں بڑی تعداد دودھ دینے والی گائیں، بھینسوں اور نومولود کٹوں کی ہوتی ہے۔ ملک بھر میں بھینس اور گائیں کے بچوں کی شرح اموات 30 فیصد ہے جبکہ کراچی میں 80 فیصد بچے پیدائش کے بعد مرجاتے ہیں۔نوجوان بھینس کو اکثر و بیشتر کم عمری میں ہی قصاب کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اگر بھینس گائیں کو قبل از وقت ذبح نہ کیا جائے تو وہ 7 سے 8 برس تک دودھ دے سکتی ہیں۔ تاہم اس کو محض ایک سال سے بھی کم عرصے میں ذبح کردیا جاتا ہے۔ اگر یہ عمل جاری رہا تو ملک میں دودھ دینے والے جانوروں کی قلت پیدا ہوسکتی ہے۔کراچی میونسپل کارپوریشن کے 1975ء میں بننے والے بائی لاز میں کارآمد جانوروں کو ذبح کرنا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس وقت کراچی کی کیٹل مارکیٹ میں 7 سے 8 لاکھ دودھ دینے والے جانور موجود ہیں۔ جن میں سے 4 لاکھ صرف بھینس کالونی میں ہیں۔ شہر میں دودھ دینے والے جانور ایک پورا سال بھی باڑے میں نہیں گزار پاتے ہیں۔ تقریباً 272 دنوں بعد جب بھینس یا گائے کا لیکٹیشن دورانیہ ختم ہوتا ہے تو کسان اس جانور کو قصاب کے حوالے کرکے ان کی جگہ نیا جانور باندھ دیتا ہے اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ دودھ فروش کیٹل فارمرز کٹوں کو پالنے کے بجائے انہیں قصاب کے حوالے کردیتے ہیں؟اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک لیٹر دودھ ایک وقت میں کٹا یا بچہ پی جائے گا تو انہیں 155 روپے کا خسارہ ہوگا۔ اگر ہر فارمر 3 سے 4 بچھڑوں کو پالے تو اس کو یومیہ 3 سے 4 لیٹر دودھ کی ضرورت ہوگی۔ اکثر فارمر اس کام میں اپنا نفع نقصان دیکھتا ہے۔ فارمرز صرف اور صرف دودھ کی فروخت پر توجہ دیتے ہیں۔وفاقی حکومت کی ہدایات پر لائیو اسٹاک ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ نے ان بچھڑوں کی حفاظت کے لیے سیو دی کاف کے نام سے پروگرام شروع کیا ہے۔ اس منصوبے سے وابستہ ڈاکٹر محسن کنانی کہتے ہیں کہ ’ملک بھر میں 30 فیصد اور کراچی میں 80 فیصد بچھڑے ذبح کردیے جاتے ہیں۔ یہ پروگرام 2023ء تک جاری رہے گا جس کے تحت مجموعی طور پر 4 لاکھ بچھڑوں کو بچانے کا ارادہ کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے فی جانور 6500 روپے کی سبسڈی کے علاوہ دیگر مراعات بھی دی جارہی ہیں‘۔مگر سندھ اور بلوچستان میں اس طرح کے اقدامات نظر نہیں آرہے۔پاکستان میں دودھ کی پیداواری لاگت دیگر ملکوں سے بہت زیادہ ہے اور دودھ بھی مہنگا بکتا ہے۔ فارمرز اپنا منافع بڑھانے کے لیے قیمت میں اضافہ کرتے ہیں مگر انہیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اگر جانوروں کی پیداوار بڑھائی جائے تو اس طرح انہیں زیادہ فائدہ ہوگا اور دودھ کی لاگت بھی کم ہوگی۔دنیا کے مختلف ملکوں میں ڈیری کے کاروبار سے وابستہ فریزلینڈ کمپنیاں اینگرو پاکستان کے ڈاکٹر ناصر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی یہ تسلیم کیا کہ ’پاکستان میں دودھ کی پیداواری لاگت دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں قیمتوں کو بڑھا کر کاروبار کو منافع بخش بنانے کا رجحان پایا جاتا ہے جبکہ دنیا بھر میں جدید اصولوں کی بنیاد پر کاروباری لاگت کم کرکے اور جانوروں کی پیداواری صلاحیت بڑھا کر منافع بڑھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک جانور سے یومیہ جتنا دودھ حاصل ہوتا ہے وہ دنیا بھر کی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے‘۔ان کے مطابق ’چارے کی سال بھر مناسب قیمت پر عدم دستیابی دودھ کی پیداوار اور لاگت سے جڑا ایک اہم مسئلہ ہے۔ دودھ دینے والے جانوروں خاص طور پر مقامی نسلوں کو جنیاتی طور پر بہتر بنانا ایک ضروری عمل ہے جو پاکستان میں تقریباً ناپید ہے۔ اگر ہم طویل عرصے کی درست منصوبہ بندی کریں تو جینیاتی طور پر دودھ دینے کے لیے تیار کیے گئے جانوروں کا استعمال ہی دودھ کی پیداوار میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا‘۔وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے دو طرفہ حکمتِ عملی تیار کرنی ہوگی جس میں ایک طرف روایتی کسانوں کے لیے بنیادی آگاہی، خدمت اور آسان قرضوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور دوسری طرف سرمایہ کاروں کو کمرشل یا کارپوریٹ فارمنگ کی جانب راغب کرنے کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں‘۔فارمنگ کے لیے سازگار تجارتی اور کاروباری ماحول فراہم کرنے میں حکومت کا کردار نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے تاکہ اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو۔اب ہم چلتے ہیں پنجاب کے شہر ساہیوال جہاں راؤ محمد عثمان نے ایک جدید کیٹل فارم بنایا ہوا ہے۔ عثمان پیشے کے لحاظ سے سافٹ ویئر انجینیئر ہیں۔ وہ نہ صرف دودھ دینے والے جانوروں کو عالمی معیار کے مطابق پال رہے ہیں بلکہ اپنی تعلیم کو بھی اس پیشے میں استعمال کررہے ہیں۔ وہ فارم سے متعلق ہر چیز کا کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں جس سے انہیں اپنے فارم کو بہتر انداز سے چلانے میں بہت مدد مل رہی ہے۔راؤ محمد عثمان کا کہنا ہے کہ ’وہ معیاری اصولوں کے مطابق اپنے تمام جانوروں کو پال رہے ہیں۔ دودھ دینے والے جانوروں کو صاف ماحول، اندھیرے یا تنگ کمروں میں بند کرنے کے بجائے کھلے ہوادار اور صاف ستھری جگہ پر رکھا جاتا ہے۔ انہیں سنگل سے باندھنا ٹھیک نہیں ہے۔ جانور کے سامنے 24 گھنٹے چارہ (خوراک) اور پانی ڈالا جاتا ہے۔ دن میں 3 سے 4 مرتبہ پیدا ہونے والے گوبر کی ٹریکٹر سے صفائی کی جاتی ہے۔ شیڈ میں جراثیم اور حشرات کش ادویات کا اسپرے کیا جاتا ہے‘۔وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’جانوروں کو موسم کی مناسبت سے غذا دی جاتی ہے۔ سردیوں میں مولیسس کو بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی دھیان رکھا جاتا ہے کہ جانوروں نے یومیہ بنیادوں پر کتنا چارہ کھایا ہے؟ اور اگر کھرلی میں باقی بچے ہوئے چارے کی مقدار بڑھنے لگے تو اس شیڈ میں موجود جانوروں کی جانچ کی جاتی ہے‘۔عثمان کا کہنا ہے کہ ’دودھ دینے والے جانور کو اچھی خوراک اور آرام دہ ماحول دینا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر جانور کو اچھا ماحول نہیں ملا اور اس کو کیڑے مکوڑے اور دیگر چیزوں سے بے آرامی رہی تو اس کی دودھ کی پیداوار کم ہوجائے گی‘۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ دودھ کتنے روپے لیٹر پڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب عثمان نے یوں دیا کہ ’انہیں تمام تر یومیہ اخراجات نکال کر فارم پر فی لیٹر دودھ 65 روپے میں پڑتا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ فارم پر موجود جانور کو اچھا ماحول اور خوراک دی جاتی ہے۔ سب سے کم ایلڈ (کم پیداوار) والے جانور یومیہ 26 سے 28 لیٹر تک دودھ دیتے ہیں جبکہ بعض جانور یومیہ 45 لیٹر تک دودھ دیتے ہیں‘۔عثمان اپنے فارم پر دودھ کی یومیہ بنیادوں پر جانچ کرتے ہیں اور ہر جانور کے دودھ کی جانچ کرکے ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں۔ اگر دودھ میں کسی قسم کی بیماری کے اثرات کا پتا چلے تو اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار جانوروں کے خون کے نمونے بھی لیے جاتے ہیں۔بے چاری نیلی پری کے مالک نے اس کو 270 دن کے لیکٹیشن کے بعد فروخت کردینا ہے مگر عثمان کے فارم پر معاملہ الگ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’وہ اپنے جانور سے سالانہ 305 دن یعنی بھینس کالونی کی بھینس کے مقابلے میں 35 اضافی دن دودھ لیتے ہیں اور جس گائیں کو بچے کی پیدائش کے لیے تیار کرنا ہو اس کی خوراک میں کمی کی جاتی ہے۔ پھر اس کو قدرتی نظام گزارا جاتا ہے اور کم از کم 5 مرتبہ اس عمل کو دہرایا جاتا ہے اور 7 سال بعد بھلے ہی جانور دودھ دینے کے قابل ہو لیکن اس کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ ایک جانور 7 سال میں دودھ دینے کے علاوہ 5 سے 7 بچھڑے بھی دے جاتا ہے۔دوسری جانب نومولود بچھڑیوں کو فارم پر پالا جاتا ہے اور یہ جانور ریٹائر ہونے والے جانوروں کی جگہ لیتے رہتے ہیں اور اس طرح ایک سائیکل چلتا رہتا ہے۔ یوں فارم کے لیے نئے جانور خریدنے نہیں پڑتے ہیں۔عثمان کے مطابق ’گائیں کے بچھڑوں کو پالنا ایک مشکل کام ہے اور انہیں روزانہ کی بنیاد پر دودھ فراہم کرنا پڑتا ہے اور پیدائش کے 90 دن تک ان پر ڈیڑھ لاکھ روپے خرچہ ہوتا ہے جبکہ ان جانوروں کو دودھ دینے کے قابل بنانے تک خرچہ ڈھائی لاکھ روپے تک آجاتا ہے‘۔کراچی کی بھینس کالونی اور ساہیوال کے عثمان کے پاس دودھ کی پیداوار کے حوالے سے اپنائے جانے والے طریقہ کار کو آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جس طرح دودھ دینے والے جانوروں کو بھینس کالونی میں رکھا جارہا ہے اور کسی طور بھی جدید طریقہ کار کو نہیں اپنایا جارہا ہے اس سے ہر چند ماہ بعد یا تو شہر میں دودھ کی قیمت کو بڑھانا پڑے گا یا پھر حکومت کو اس عمل میں مداخلت کرتے ہوئے کسانوں کو دودھ کی پیداوار کے نظام کو اپ گریڈ اور جدید بنانے کے حوالے سے معاونت کرنی ہوگی تاکہ دودھ کی قیمت کو کم کیا جاسکے۔پاکستان میں فوڈ سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے کسانوں، حکومت، مِلک پراسیسرز کو متحد ہوکر کام کرنا ہوگا تاکہ جانوروں کی ایلڈ کو بڑھایا جاسکے۔ اس حوالے سے حکومت کو آگے بڑھتے ہوئے قلیل و طویل مدتی پالیسیاں ترتیب دینی ہوں گی۔ اس پالیسی کو تیار کرنے میں اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی ضروری ہے۔ یہ وقت دودھ کے معیار جانچنے، دودھ کی ہینڈلنگ اور کولڈ چین کے قیام کے حوالے سے اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔

راجہ کامران 


مری میں پاک فوج کا ریسکیو آپریشن، تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کیلئے کلیئر کردیا گیا

 راولپنڈی :مری میں پاک فوج کا ریسکیوآپریشن جاری ہے،شدید برفباری سے متاثرہ سیاحتی مقام مری کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کیلئے کلیئر کر دیا گیا، جھیکاگلی ،ایکسپریس وے، گھڑیال اوربھوربن کی سڑکیں بحال کردی گئیں جبکہ کلڈنہ سےباڑیاں تک بحالی کا کام مسلسل جاری ہے ۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کے مطابق مری میں پاک فوج کا ریسکیو آپریشن جاری ہے، مختلف مقامات پرامدادی اور رہائشی کمپس فعال ہیں، ایک ہزار سے زائد پھنسے افراد کوکھانا فراہم کیا گیاہے۔آئی ایس پی آرکےمطابق جھیکاگلی، کشمیری بازار،لوئرٹوپہ اورکلڈنہ میں ایک ہزار سے زائد افراد کو کھانا فراہم کیا گیا ہے ، ملٹری کالج مری، سپلائی ڈپو، اے پی ایس اورآرمی لاجسٹک اسکول میں پناہ اورخوراک فراہم کی جارہی ہے،اب تک 300 افراد بشمول بچوں کوآرمی ڈاکٹرزوپیرامیڈکس نےطبی امداد فراہم کی گئی۔مری کے متاثر علاقوں میں ریسکیوو ریلیف آرپریشن جاری ہے،جھیکاگلی سےایکسپریس وے اورجھیکاگلی سے کلڈنہ تک کا راستہ کھل دیا گیاہے ۔گھڑیال سے بھوربن کی سڑک سے بھی برف ہٹا دی گئی ہے ،سڑکوں پر پھسلن کے باعث احتیاط برتی جارہی ہے جبکہ کلڈنہ سےباڑیاں کے درمیان راستے کھولنے کیلئے انجینئرزاورکلیئرنس مشینری مسلسل کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

مری کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کیلئے کلیئر کر دیا گیا

شدید برفباری سے متاثرہ سیاحتی مقام مری کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کیلئے کلیئر کر دیا گیا ہے، رات گئے پولیس اورانتظامیہ نے 600سے 700پھنسی گاڑیوں کو برف سے نکالا۔ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق شدید برفباری کی وجہ سے مری کی بڑی شاہراہوں پر 20 سے 25 بڑے درخت گرے،جس سے راستے بلاک ہوگئے تھے۔مری سے رات گئے 600 سے 700 گاڑیوں کو نکالا گیا اور سیاحوں کو محفوظ مقامات پرپہنچا،24 گھنٹوں کے دوران 500 سے زائد فیملیز کو ریسکیو کرکے محفوظ مقام پرپہنچایا گیا۔جھیکا گلی سے لوئر ٹوپہ ایکسپریس ہائی وے اور جھیکا گلی سے لارنس کالج روڈ کو ٹریفک کیلئے کلیئرکر دیا گیا ہے۔گلڈنہ سے آر ایم کے روڈ کو بھی رات گئے کلیئر کردیا گیا تھا تاہم اسلام آباد،راولپنڈی اور خیبرپختونخوا سے مری جانے والی ٹریفک کا داخلہ آج بھی بند رہے گا، اضافی نفری اور بھاری مشینری کو ہنگامی بنیادوں پر مری پہنچایا گیا ہے۔کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے مری کے تمام سرکاری اور نجی اسپتالوں میں بھی عملہ الرٹ ہے۔دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارآج مری جائیں گے،عثمان بزدار برفباری سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے۔

سانحہ مری میں جاں بحق 22افراد کی میتیں آبائی علاقوں میں پہنچا دی گئیں

سانحہ مری میں جاں بحق 22افراد کی میتیں آبائی علاقوں میں پہنچا دی گئیں،جاں بحق افراد کی نماز جنازہ آج مختلف علاقوں میں ادا کی جائے گی۔سانحہ مری پر پورا ملک سوگوار ہے وہی سیاحتی مقام مری میں پیش آنے والے المناک سانحے میں لقمہ اجل بننے والوں کی میتیں ان کے آبائی علاقوں میں پہنچادی گئی ہیں۔اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی نوید اقبال سمیت خاندان کے 8افراد کی میتیں گزشتہ روز اسلام آباد منتقل کی گئیں تھیں ،جن میں نوید اقبال ، 3بیٹیاں ، ایک بیٹا،بہن ،بھانجھی اوربھتیجے شامل ہیں۔اے ایس آئی نویداقبال سمیت خاندان کے 8 افراد کی نماز جنازہ آج ڈھائی بجے تلہ گنگ کے موضع دودیال میں ادا کی جائےگی۔مری سانحےمیں راولپنڈی کے ایک ہی گھرکے6 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے،جن میں محمد شہزاد ،اہلیہ سائمہ شہزاد ،2بیٹےاور2بیٹیاں شامل ہیں ، ان کی نمازجنازہ دوپہر2بجے راول پارک میں ادا کی جائے گی۔سانحہ مری میں برفباری کے دوران جاں بحق ہونےوالےلاہور اور کامونکی کے 3دوستوں کی میتیں ان کے گھر پہنچا دی گئیں۔کامونکی سے تعلق رکھنے والے اشفاق اور لاہور کے رہائشی ظفراقبال اورمعروف اشرف کی میتیں علیٰ الصبح ان کے گھر پہنچائی گئی،میتیں پہنچے ہی گھرمیں کہرام برپا ہوگیا۔المناک سانحے پرعلاقے کی فضا سوگواراورہرآنکھ اشکبارہے، ظفر اقبال اور معروف اشرف کی نمازجنازہ لاہورمیں جبکہ اشفاق کی کامونکی میں بعد نماز ظہر ادا کی جائے گی۔ظفراقبال اورمعروف جمعرات کی رات کامونکی کے دوست اشفاق کے ساتھ سیرو تفریح کیلئےمری گئےتھے۔اہلخانہ کے مطابق تینوں دوست لاہورکی ایک ہی کمپنی میں ملازم تھے، ظفراقبال 4جبکہ اشفاق 2بچوں کا باپ تھا۔مری میں جاں بحق 4دوستوں کی نماز جنازہ مرادن میں ادا کی جائےگی، سہیل خان، بلال حسین،اسد اورمحمد بلال کی میتیں رات گئے آبائی علاقوں کو پہنچائی گئی تھیں۔خاندانی ذرائع کے مطابق سہیل خان کی نمازجنازہ صبح 11 بجے میاں عیسیٰ میں ادا کی جائےگی۔اس کے علاوہ محمد بلال کی نمازجنازہ دوپہر 2 بجے چرچوڑ میں ادا کی جائےگی جبکہ اسد اوربلال حسین کی نمازجنازہ3 بجےتازہ گرام میں ادا کی جائےگی۔

سانحہ مری کے سوگ میں آزاد کشمیرمیں سیاحتی سرگرمیاں معطل

سانحہ مری کے سوگ میں آزاد کشمیرمیں سیاحتی سرگرمیاں معطل کردی گئی ہیں جبکہ برفباری سے متاثرہ علاقوں میں سیاحوں کو جانے سے روک دیا گیا ۔وادی نیلم میں جاری دوروزہ نیلم سنوفیسٹیول ملتوی کردیا گیا جبکہ کیرن کے مقام پر سانحہ مری میں جاں بحق ہونے والوں کیلئے دعا کی گئی۔فیسٹیول کے شرکاء ،م علاقہ مکینوں اورسیاحوں نے جاں بحق سیاحوں کے بلند درجات کیلئے فاتحہ خوانی کی جبکہ ایک منٹ کی خاموش اختیارکرنے کے علاوہ شمعیں بھی روشن کی گئیں ۔محکمہ سیاحت نے آزادکشمیر کے شدید برفباری والے علاقوں میں سیاحوں کو جانے سے روک دیا ۔آزاد کشمیرپولیس بھی مری گلیات میں جاری ریسکیوآپریشن میں حصہ لے رہی ہے، آزاد کشمیر پولیس اور سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ٹیمیں امدادی سرگرمیوں کا حصہ ہیں ۔


Thursday, 6 January 2022

وزیراعظم نے چیئرمین نیب کو کسی بھی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہونے سے روک دیا

 


 پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پی اے سی کا ان کیمرہ اجلاس ہوا، جس میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال پیش نہ ہوئے۔نور عالم خان نے کہا کہ یہ اجلاس چیئرمین نیب کے کہنے پر ہی بلایا گیا تھا اور ان کیمرہ کیا تھا، اب اچانک نیب کی جانب سے لیٹر آیا ہے کہ پرنسپل اکاونٹنگ آفسر بدل گئے ہیں، جب کہ لیٹر میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم و کابینہ نے اس کی منظوری دی ہے۔پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ اجلاس میں چیئرمین نیب نے ریکوریز پر پی اے سی ان کیمرا اجلاس مانگا تھا، چیئرمین نیب سے ہم نے ریکوریز کے اعداد و شمار مانگے تھے، چیئرمین نیب نے کہا تھا وہ خود آ کر ریکوریز کے اعداد و شمار پیش کرے گے،ابھی ہمیں ایک لیٹر دکھایا گیا ہے کہ پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر بدل گئے ہیں۔نوید قمر نے کہا کہ چیئرمین نیب پارلیمان کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا چاہتے، چیئرمین نیب چاہتے ہیں سب ان کے سامنے جوابدہ ہوں، وہ خود کسی کے سامنے پیش نا ہوں،  وفاقی کابینہ کے پاس اختیار نہیں کہ وہ چیئرمین نیب کو پی آے سی میں آنے سے منع کرے۔دوسری جانب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال میں پیش نہ ہونے کی وجہ سامنے آگئی ہے،  نیب نے وزیر اعظم کے حوالے سے سیکرٹری اسمبلی کو خط لکھا کہ وزیر اعظم نے چیئرمین نیب کی جگہ ڈی جی نیب کو بریفنگ دینے کی منظوری دی ہے، اور کہا ہے کہ چیئرمین نیب پی اے سی سمیت کسی بھی قائمہ کمیٹی، آئینی ادارے اور خود مختاری اداروں کے سامنے بطور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر پیش نہیں ہوں گے، چیئرمین نیب کی نمائندگی ڈی جی نیب تمام کمیٹیوں میں کیا کریں گے۔اس حوالے سے چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حسین نے کہا کہ نیب کے خط کی وضاحت کے لئے کابینہ ڈویژن کو خط لکھیں گے، اگر قواعد وزیر اعظم کو چیئرمین کی جگہ ڈی جی کو نمائندگی کا اختیار دیتے ہیں تو تسلیم کریں گےِ چیئرمین نیب کو آنا چاہئے تھا۔چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی پوزیشن اور ہے اور چیئرمین نیب کی اور ہے، چیف نیب کی پوزیشن یکسر مختلف اور قابل احتساب ہے، اگر حکومت اسے جوابدہ نہ بنائے تو یہ زیادتی ہوگی، جو پیسے چیئرمین نیب نے اپنے دور میں خرچ کئے ہیں اسے اس کا حساب دینا ہوگا، کیبنٹ سیکرٹری ٹیلفونک و تحریری طور پر آگاہ کرے کہ کیا یہ قانون کے مطابق نوٹیفکیشن کیا گیا ہے، اگر ایک بندہ وزیراعظم کو بہت عزیز ہے تو انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔

Dhanak Rang lahore

Magazine DRL

حکومت کا منی بجٹ کی منظوری کے لیے 10 جنوری کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ

 اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور بیرسٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 10 جنوری کی شام 4 بجے بلانے کی سمری بھجوا دی ہے، اجلاس میں فنانس ایکٹ ترمیمی بل پیش کیا جائے گا، جب کہ سینیٹ کی فنانس ایکٹ ترمیمی بل پر تجاویز کو زیرغور لایا جائے گا۔بابر اعوان کا کہنا تھا کہ حکومت قوم اور عام آدمی کی بہتری کے لئے قانون سازی کا عمل رکنے نہیں دے گی، اپوزیشن کو دعوت ہے کہ وہ قانون سازی میں عملی طور پر حصہ لے، ایوان میں نعرے بازی سے اپوزیشن قانون نہیں بنا سکتی، ہم قانون سازی اپوزیشن کے ہنگامہ آرائی سے نہیں رکنے دیں گے، قانون سازی پر مذاکرات کے لئے دروازے کھلے ہیں۔


جوڈیشل کمیشن نے جسٹس عائشہ کی سپریم کورٹ میں تقرری کی سفارش کردی

 اسلام آباد: جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) نے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کی سفارش کردی ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی فائیز عیسی اور جسٹس سردار طارق سمیت دیگر ممبران نے شرکت کی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے جے سی پی کے اجلاس کی صدارت کی اور جسٹس عائشہ ملک کی ترقی کو 4 کے مقابلے 5 ووٹوں کی اکثریت سے  منظور کیا۔جوڈیشل کمیشن کی جانب سے جسٹس عائشہ ملک کے نام کی سفارش کے بعد مذکورہ معاملہ حتمی منظوری کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کو بھیج دیا گیا ہے۔جے سی پی کی سفارش کے بعد جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ میں ملک کی پہلی خاتون جج بن جائیں گی۔یہ دوسرا موقع ہے کہ جے سی پی نے جسٹس عائشہ ملک کی ترقی پر فیصلہ کرنے کے لیے اجلاس کیا۔گزشتہ سال 9 ستمبر کو جے سی پی کی ایک توسیعی اجلاس کے دوران اتفاق رائے کی کمی نے کمیشن کو اس کی ترقی کو مسترد کرنے پر مجبور کیا تھا۔دوسری جانب پاکستان بار کونسل کی جانب سے وکلا نے ملک گیر ہڑتال کی ہڑتال کے موقع پر سپریم کورٹ میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی تاہم سپریم کورٹ میں وکلا معمول کے مطابق پیش ہوتے رہے۔