Monday, 21 June 2021
’بی بی امر نہ ہوتیں تو آج بھی امر ہونے کی جنگ لڑ رہی ہوتیں‘
جس عمر میں لڑکیاں باپ کے ناز نخرے اٹھانے کے باعث اٹھلا اٹھلا کر چلتی ہیں اور اپنے ہم عمروں سے اٹھکیلیاں کرتی پھرتی ہیں اس عمر میں بینظیر بھٹو کے شب و روز سزائے موت کے قیدی باپ کی جان بخشی کرانے کی تدبیریں کرتے گزرتے۔
بینظیر نے اپنی نوخیزعمر میں والد کے ساتھ ملک ملک کی سیر کی اور جب وہ پاکستان کے سربراہ تھے تو ان کے ساتھ کئی ممالک کے حکمرانوں سے ملاقاتیں کرکے اپنے تدبر اور تمدن کو نئے زاویوں سے ہم آہنگ کیا۔
لیکن یہ بات نہ تو بینظیر کو پتہ تھی اور نہ ہی ان کے والد کو کہ جو تربیت وہ بین الاقوامی درسگاہوں اور عالمی رہنماؤں سے حاصل کر رہی تھیں وہ ان کے باپ کی جان بچانے کے لیے ذرہ بھر کام نہیں آئے گی۔
وہ اپنے باپ کی بقا کی جنگ نہیں جیت سکی اور ایک آمر کے ہاتھوں اس کی پھانسی کا زخم لیے پسپا ہوتی ہوتی جلا وطن ہو گئی۔
جلاوطنی سے لوٹی تو جس قوم کو وہ باپ کی پھانسی کے غم میں چھوڑ کرگئی تھی، وہ قوم اس کی قیادت کی منتظر تھی۔ لیکن قیادت کا یہ فرض نبھانے سے پہلے اسے ایک ایسے شخص کا ساتھ درکار تھا جو ان کی بڑھتی عمر میں اس کی زندگی کا ساتھی بن سکے۔
لیکن بے پناہ ذہانت کی مالک بینظیر شاید قسمت کی دھنی نہ تھی۔
سندھ کے ایک بیٹے سے شادی کر کے اس کو توقع تھی کہ اب اس کی دھرتی پر اس کے قدم مضبوطی سے جم جائیں گے، لیکن ہر گزرتا دن اس کا لوگوں سے تعلق کمزور کرتا گیا۔
اقتدار کی مسند پر پہنچیں تو خواب تھے کہ اپنے لوگوں کی زندگیاں بدل کر خود امر ہو جائیں گی۔ خیال تھا کہ جمہوریت کو باپ کے قتل کے خلاف بہترین انتقام بنائیں گی۔
اس کی راہ میں روڑے اٹکانے والوں نے اس کو ناکام بنانے کے لیے ’سکیورٹی تھریٹ‘ قرار دیا، لیکن وہ ڈٹی رہی۔
اس کی خواب دیکھتی آنکھیں ابھی پوری طرح وا نہ ہوئی تھیں کہ اس کے شریک حیات کی رنگ برنگی کہانیاں اس کی اور ہر دوسرے فرد کے کانوں سے ٹکرانے لگیں۔ بہت جلد لوگ اس کو بینیظیر کے شوہر نہیں بلکہ ’’مسٹر ٹین پرسنٹ‘‘ کے نام سے مخاطب کرنے لگے۔
بینظیر پڑھی مغرب میں تھیں، لیکن پہچان ’دخترمشرق‘‘ کی چاہتی تھیں۔
سو نظرانداز کرتی رہی، حتٰی کہ بدعنوانیوں کے قصے اس کے شوہر کی ذات سے ہوتے ہوئے اس کے اپنے ساتھ منسلک ہونے لگے۔
حکومت چلی گئی تو وہ واپس عوام کے پاس گئیں۔ حزب اختلاف میں بیٹھیں تو عوام کی بات کرتی رہیں۔ پھر حکومت ملی اور پھر وہی ’’ٹین پرسنٹ‘‘ کی کہانیاں۔
اب کے حکومت گئی تو پھر جلاوطنی ملی اور شوہر کو قید۔
ابھی ان کا سیاسی حریف کے ساتھ اقتدار کی بازی کا کھیل جاری تھا کہ ان کی کردار کشی کرکے اپنی پارٹی کی جگہ بنانے والے روایتی سیاسی مخالف نواز شریف کی حکومت کا بستر بھی فوج نے گول کر دیا اور کچھ عرصے بعد وہ بھی جلا وطن ہو گئے۔
بی بی کے حق میں قرعہ ایک مرتبہ پھر نکلنے کو تھا۔ مگر اس سے پہلے اس نے ماضی کے حریف کے ساتھ مخاصمت ختم کرکے ایک بہتر اور خوشگوار مستقبل کے لیے ’میثاق جمہوریت‘ کا عہد باندھ لیا۔
بین الاقوامی دوستوں کی مدد سے وقت کے ایک اور آمر کے ساتھ ایک نئی جنگ میں ایک نیا معاہدہ کرکے وہ وطن لوٹی تو پھر سے امر ہونے کا خواب رچا لیا۔
ان کو کہا گیا کہ جو طے ہوا ہے اس کے مطابق پس منظرمیں رہ کرخوابوں کی تعبیر کے سپنے بنیں۔
انھوں نے امر ہونے کی جنگ میں پسپائی اختیار کرنے سے انکار کر دیا اور ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو بھرے مجمعے میں خون دے کر ہمیشہ کی زندگی پا لی۔
اور پھر ان کا شوہر ان کی پارٹی، ان کی جائیداد، ان کی اولاد، ان کی ساری زندگی کی جدوجہد کے ثمر کا ’’ہنڈرڈ پرسنٹ‘‘ مالک بن گیا۔
ان کی پارٹی کی حکومت بنی تو وہ صدر بن گیا۔
لیکن پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں اس کے قتل کے اسباب تک کا پتہ نہ لگایا جا سکا۔
آج بی بی امرہے، لیکن اسکی جماعت اس کے خوابوں سے کوسوں دور۔
اگر وہ ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو امرنہ ہوتی تو شاید اسکی جماعت کے دور میں امریکہ کے حملے سے پہلے ہی اسامہ بن لادن گرفتار ہو چکا ہوتا۔
جمہوری حکومت میں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں گورنر راج نہ لگتا، عدلیہ، جس کی بحالی کے لیے بی بی پرچم تھامے سڑکوں پر نکلی تھی، کی حقیقی بحالی کے لیے ایک اور لانگ مارچ نہ ہوتا اور آرمی چیف کو رات گئے فون نہ گھمانے پڑتے۔
میمو گیٹ سکینڈل بنتا اورنہ ہی دہشت گردی کی جنگ طول پکڑتی۔
پورا سندھ ’’موہن جو داڑو‘‘ نہ بنتا، پیپلز پارٹی کو لوگوں کو جلسوں میں لانے کے لیے پیسے نہ دینے پڑتے اور نہ ہی یہ نوبت آتی کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اسمبلی میں کھڑے ہو کر کہتے کہ
’’حساب کتاب بند کرو، آگے کی بات کرو‘‘
بی بی امر نہ ہوتی توشاید آج بھی امر ہونے کی جنگ لڑ رہی ہوتی نہ کہ حساب کتاب بند کرنے کی۔
پاکستان میں کورونا کیسز کی شرح کم، ویکسینیشن کی صورتحال میں ’آج سے بہتری‘
پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اقدامات تجویز کرنے والے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے کہا ہے کہ ملک میں وبا کے نئے کیسز کی شرح تیزی سے گری ہے۔پیر کو جاری کیے گئے اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پاکستان میں کورونا کے 907 مثبت کیسز رپورٹ کیے گئے جبکہ اس دوران 34 ہزار 754 ٹیسٹ کرائے گئے تھے۔سینٹر کے مطابق اس طرح پاکستان میں مثبت کیسز کی شرح دو اعشاریہ چھ فیصد رہی۔ ملک میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے 30 اموات ہوئیں۔
این سی او سی کے مطابق پاکستان میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران عالمی وبا سے مرنے والوں کی تعداد 272 رہی۔
ویکسینیشن کی صورتحال
پاکستان میں گزشتہ ہفتے ویکسین کی قلت پیدا ہونے کی شکایات کے بعد حکام نے کہا ہے کہ آج سے صورتحال میں بہتری آئے گی۔
اتوار کو این سی او سی نے اعلان کیا تھا کہ ملک میں چین سے ویکسین کی مزید 15 لاکھ خوراکیں پہنچا دی گئی ہیں جو چاروں صوبوں کے ویکسینیشن سینٹرز کو ارسال کی جا رہی ہیں۔
این سی او سی کے سابق اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے اگلے دس روز میں ملک میں مزید 50 لاکھ ویکسین پہنچنے کی ٹویٹ کی تھی۔
اسد عمر نے کہا تھا کہ یومیہ لاکھوں شہری ویکسینیشن کرا رہے ہیں اور امید ظاہر کی تھی کہ یہ تعداد مزید بڑھے گی۔
ایسٹرازینیکا ویکسین کے لیے احتجاج
پاکستان میں ایسٹرازینیکا ویکسین کی قلت کے باعث بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں خصوصا صوبہ پنجاب میں ایسٹرازینیکا ویکسین دستیاب نہیں جس کے باعث اتوار کو ایکسپو سینٹر لاہور کے باہر ویکسین لگوانے والوں نے احتجاج کیا۔
ایکسپو سنٹر لاہور کے باہر احتجاج کرنے والوں میں زیادہ تر تعداد ان افراد کی تھی جو بیرون ملک سفر کرنا چاہتے ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی عرب سمیت بیشتر ممالک نے بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کے لیے ایسٹرازینیکا اور فائزر ویکسین کی منظوری دی ہے۔
پاکستان میں بیرون ملک سفر کرنے والوں کو ایسٹرازینیکا ویکسین لگوانے کی ہدایت کی گئی ہے تاہم بیشتر سینٹرز میں مطلوبہ ویکسین دستیاب نہیں۔
اتوار کو پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’پاکستان کو کوویکس کی جانب سے ایسٹرازینیکا ویکسین موصول ہوئی تھی اور دوسری کھیپ بھی کوویکس معاہدے کے تحت پاکستان کو فراہم کرے گا لیکن اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ کوویکس ایسٹرازینیکا کی دوسری کھیپ پاکستان کو کب بھیجے گا۔‘
’اسلامی نظام‘ ہی افغانستان میں امن اور خواتین کے حقوق کا واحد راستہ ہے، طالبان
افغان طالبان کا کہنا ہے کہ وہ امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور افغانستان میں ’حقیقی اسلامی نظام‘ لانا چاہتے ہیں جس میں علاقائی روایات اور مذہب کے مطابق خواتین کو حقوق دیے جائیں گے۔برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اتوار کو قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا غنی برادر کی طرف سے جاری ہونے والا یہ بیان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب طالبان اور افغان حکومت کے درمیان قطر میں ہونے والے مزاکرات سست روی کا شکار ہیں اور افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا سے قبل تشدد میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ حکام نے مذاکرات کی سست روی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان نے ابھی تک تحریری طور پر کوئی دستاویز پیش نہیں کی ہے جسے بامعنی مذاکرات کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ ملا غنی برادر نے کہا کہ ’دنیا اور افغانوں کے غیرملکی افواج کے بعد نظام حکومت کے بارے میں سوالات ہیں، اور یہ مسائل دوحہ میں مذاکرات کے ذریعے حل کیے جا سکتے ہیں۔‘
’ایک حقیقی اسلامی نظام افغانوں کے تمام مسائل کا سب سے بہتر حل ہے۔ ہمارا مذاکرات میں شرکت کرنا اور اس کی حمایت کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم باہمی بات چیت سے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’خواتین اور اقلیت کا تحفظ کیا جائے گا، اور سفارت کاروں اور این جی اوز بھی محفوظ طریقے سے کام کر سکیں گے۔‘
ملا غنی برادر نے کہا کہ ’ہم اس بات کی ذمہ داری لیتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اور افغان روایات کو سامنے رکھتے ہوئے ملک میں شہریوں کے تمام حقوق کا تحفظ کیا جائے گا، چاہے وہ مرد ہوں یا عورتیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’خواتین کو تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کی سہولیات مہیا کی جائیں گی۔‘
تاہم یہ بات واضح نہیں ہو سکی کہ طالبان خواتین کو عوامی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے دیں گے یا نہیں اور دفاتر اور سکولوں کو جنس کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے گا یا نہیں۔
مئی میں امریکی انٹیلیجنس کے تجزیہ کاروں نے کہا تھا کہ اگر طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو خواتین کے حقوق کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت کو ’واپس لے لیں گے۔‘
سنہ 2001 میں افغانستان میں امریکی حملے سے پہلے طالبان نے شرعی نظام نافذ کر رکھا تھا جس کے تحت لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں تھی اور خواتین کو نہ گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت تھی اور نہ ہی وہ مرد رشتہ دار کے بغیر باہر جا سکتی تھیں۔
ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ: 101 رنز پر نیوزی لینڈ کے دو کھلاڑی آؤٹ
انڈیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ورلڈ ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے فائنل کے تیسرے دن کا اختتام ہو گیا ہے۔انڈیا کی پہلی اننگز کے سکور 217 رنز کے جواب میں نیوزی لینڈ نے تیسرے دن کے کھیل کے خاتمے پر دو وکٹوں کے نقصان پر 102 رنز بنائے ہیں۔ٹام لیتھم 30 اور ڈیون کونوے 54 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ ٹام لیتھم کو اشون نے آؤٹ کیا جب کہ ڈیون کونوے اشانت شرما کا شکار بنے۔تیسرے دن کے کھیل کے اختتام پر کین ولیمسن اور راس ٹیلر کریز پر موجود تھے۔
قبل ازیں انڈیا نے اتوار کی صبح جب 146 رنز پر اپنی اننگز کا آغاز کیا تو وراٹ کوہلی سکور میں بغیر کسی اضافے کے کائل جیمیسن کی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔
اس کے بعد کائل جیمیسن نے جارحانہ بیٹنگ کے لیے مشہور رشبھ پنٹ کو بھی آؤٹ کر دیا جو صرف چار رن بنا کر چلتے بنے۔
انڈیا کے چھٹے آؤٹ ہونے والے کھلاڑی اجینکیا ریہانے تھے جو بدقسمتی سے اپنی نصف سینچری مکمل نہ کر سکے اور 49 رنز بنا کر نیل ویگنر کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوگئے۔روی چندرن ایشون بھی 22 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے۔ انہیں ٹم ساؤتھی نے آؤٹ کیا۔ اس کے بعد کائل جیمیسن نے ایشانت شرما کو بھی کیچ آؤٹ کر دیا۔ وہ صرف چار رنز بنا پائے۔کائل جیمیسن نے اس سے اگلی ہی گیند پر جسپریت بمرا کو زیرو پر ایل بی ڈبلیو کر دیا۔ انڈیا کے آخری آؤٹ ہونے والے کھلاڑی رویندرا جدیجہ تھے وہ 15 رنز بنا کر ٹرینٹ بولٹ کا نشانہ بنے۔نیوزی لینڈ کی طرف سے کائل جیمیسن نے شاندار بولنگ کرتے ہوئے پانچ کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔ دوسرے دن کا احوال
انڈیا کی جانب سے اننگز کا آغاز شبمین گل اور روہت شرما نے کیا تھا۔
انڈیا کو پہلا نقصان اس وقت اٹھانا پڑا جب 62 کے مجموعی سکور پر روہت شرما 34 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔ انہیں کائل جیمیسن نے ٹم ساؤتھی کے ہاتھوں کیچ آؤٹ کرایا۔
شھبمین گل 28 رنز بنا کر نیل ویگنر کے ہاتھوں آؤٹ ہوئے۔ چیتیشور پجارا آٹھ رنز بناکر پویلین لوٹ گئے۔ انہیں ٹرینٹ بولٹ نے ایل بی ڈبلیو کیا۔ اس وقت انڈیا کا مجموعی سکور 88 رنز تھا۔
خیال رہے چیمپئن شپ کے فائنل کا پہلا دن بارش کی نظر ہو گیا تھا۔
عام طور پر ٹیسٹ میچ کا دورانیہ پانچ دن کا ہوتا ہے لیکن اس میچ کو چھٹے دن تک بھی لے جایا جا سکتا ہے جس کا فیصلہ میچ ریفری کرس براڈ کریں گے۔
فائنل کی فاتح ٹیم کو 16 لاکھ ڈالر کا انعام ملے گا اور ہارنے والی ٹیم کے حصے میں آٹھ لاکھ ڈالرز آئیں گے۔
فادرز ڈے: ’امیر ہو یا غریب باپ ہمیشہ ہیرو ہوتا ہے‘
والدین کا اولاد کے ساتھ ایک اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر ایک سا رہتا ہے، چاہے وقت اور حالات بدلتے رہیں اس رشتے سے جڑی محبت، شفقت، احساس کے جذبات کبھی نہیں بدلتے۔
اگر ماں کا کوئی نعم البدل نہیں تو باپ بھی اولاد کے لیے قدرت کی عظیم نعمت ہے جو سارے زمانے کی سختیاں جھیل کر اسے باپ کی محبت، شفقت اور قربانیوں کے اعتراف میں آج ’فادرز ڈے‘ منایا جا رہا ہے اور سوشل میڈیا پر صارفین اپنے والد سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔
اہم شخصیات سمیت سوشل میڈیا صارفین اپنے والد کی تصاویر کے ساتھ ان کی ہمت، حوصلے اور جدوجہد کو یاد کرتے ہوئے ان کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
صارفین کا کہنا ہے کہ یہ صرف اپنے والد کی قربانیوں اور جدوجہد کو یاد کرتے ہوئے ان سے محبت کے اظہار کا دن نہیں ہے بلکہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اس دن کو ان کے لیے یاد گار بھی بنائیں۔
پُرسکون زندگی فراہم کرتی ہے۔
Saturday, 19 June 2021
کورونا وائرس کی بھارتی قسم اب تک کتنے ممالک میں پہنچ چکی ہے؟ ڈبلیو ایچ او نے تصدیق کردی
دھنک رنگ میگزین
جنیوا (ویب ڈیسک) عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بتایا ہے کہ ناول کورونا وائرس کی بھارتی قسم یعنی ’’ڈیلٹا ویریئنٹ‘‘ اب تک 80 ممالک میں پھیل چکی ہے،کورونا وائرس کا ڈیلٹا ویریئنٹ جس تیزی سے پھیل رہا ہے، اسے دیکھتے ہوئے خطرہ ہے کہ اگر احتیاطی تدابیر جاری نہ رکھی گئیں تو یہ جلد ہی پوری دنیا میں پھیل سکتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او میں کووِڈ 19 سے متعلق تکنیکی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر ماریا وان کرخوف کا ایک انٹرویو گزشتہ روز ٹوئٹر پر شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ’’ڈیلٹا ویریئنٹ‘‘ سمیت، کورونا وائرس کی چار نئی اقسام، اصل کووِڈ 19 وائرس کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
واضح رہے کہ ناول کورونا وائرس کی بھارتی قسم، جسے ڈیلٹا ویریئنٹ کا نام دیا گیا ہے، پچھلے سال بھارت سے پھیلنا شروع ہوئی تھی۔ اسی قسم کو بھارت میں کورونا وائرس کی حالیہ اور تیسری لہر کی وجہ بھی قرار دیا جارہا ہے۔
دوسری ابھی ختم نہیں ہوئی ماہرین نے بھارت میں کورونا کی تیسری لہر کی تاریخ پہلے ہی دے دی
دھنک رنگ میگزین
طبی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت میں کورونا وائرس کی تیسری لہر رواں برس اکتوبر تک آسکتی ہے۔ خیال رہے کہ بھارت میں اس وقت کورونا کی دوسری لہر جاری ہے جس کے باعث روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں نئے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔برطانوی خبر ایجنسی روئٹرز کی جانب سے 3 سے 17 جون تک ڈاکٹرز، وبائی امراض کے ماہرین، سائسندانون، دنیا کے مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والے پروفیسرز سے ایک سروے کیا ہے۔سروے میں شریک 85 فیصد ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بھارت میں کورونا کی تیسری لہر اکتوبر میں آئے گی تاہم بعض ماہرین نے کہا ہے کہ تیسری لہر اگست یا ستمبر میں آسکتی ہے۔سروے میں شریک 70 فیصد ماہرین نے کہا کہ دواؤں کی دستیابی ، آکسیجن کی فراہمی ، ویکسی نیشن مہم میں تیزی کے باعث تیسری لہر کو بہتر طریقے سے کنٹرول کیا جاسکے گا۔ماہرین میں سے دوتہائی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کورونا کی تیسری لہر کے دوران بچے اور 18 سال سے کم عمر کے نابالغ افراد سب سے زیادہ متاثر ہوں گے جس کی بنیادی وجہ ان کی ویکسی نیشن نہ ہونا ہے۔