Sunday, 9 January 2022

پاکستان میں مہنگا دودھ سستا کیسے ہوسکتا ہے؟

 یہ ہے کراچی کے نواحی علاقے میں واقع اکرم* کا ڈیری فارم جہاں نیلی راوی بھینس کو آج ہی لایا گیا ہے۔ ساہیوال سے


کراچی تک کے 24 گھنٹے سے زائد کے سفر نے ان بھینسوں کو تھکا دیا ہے۔ ان میں نیلی پری کہلانے والی بھینس سب سے زیادہ خوبصورت اور صحت مند دکھائی دے رہی ہے مگر سفر کی تھکان نے اس کو بھی بے حال کیا ہوا ہے۔نیلی پری یہ نہیں جانتی کہ اس اردو کے سفر کے اختتام پر اس کے لیے انگریزی کا سفر شروع ہونے والا ہے۔ نیلی پری نے کراچی پہنچ کر ایک صحت مند کٹے کو جنم دیا اور ساتھ ہی دودھ کی پیداوار کا عمل بھی شروع ہوگیا۔ نیلی پری کو باڑے میں ایک جگہ سنگل سے باندھ دیا گیا ہے اور اب اپنی باقی ماندہ زندگی کے 270 دن وہ اسی سنگل سے بندھے ہوئے گزار دے گی۔ یہ بھینس اب روزانہ دودھ دے کر کراچی کی مِلک سپلائی چین کا حصہ بن جائے گی۔ کراچی میں چونکہ پراپرٹی بہت مہنگی ہے اس لیے باڑے کے مالک جانور کو کھلی جگہ فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔نیلی پری کو جس جگہ باندھا گیا ہے وہاں پر صفائی ستھرائی کا مناسب انتظام موجود نہیں ہے۔ اس کے گوبر کو ٹھکانے لگانے کا محض اتنا بندوبست ہے کہ دن میں ایک مرتبہ اسے باڑے کے سامنے جمع کردیا جاتا ہے جہاں مکھیاں مچھر اور مختلف کیڑے مکوڑے اس گوبر پر پلتے ہیں اور وہاں سے اڑ کر اس نیلی پری پر آن بیٹھتے ہیں۔ ایک جگہ بندھے رہنے اور تعفن زدہ ماحول نے نیلی پری کو بہت پریشان کیا ہوا ہے۔ گرمیوں میں ان جانوروں کو کسی قسم کی راحت پہنچانے کا انتظام نہیں کیا جاتا جبکہ بارشوں میں صورتحال مزید خراب ہوجاتی ہے۔ گندگی، تعفن اور حشرات کی وجہ سے جانور تناؤ کا شکار رہتا ہے۔کراچی کے علاقے بھینس کالونی میں ایک شخص دودھ کو اسٹیل کے ٹب میں منتقل کر رہا ہے۔ —

گائیں اور بھینس کو پانی بھی ان کی مرضی کے مطابق فراہم نہیں کیا جاتا۔ جانور کو صبح اور شام کے اوقات میں پانی دیا جاتا ہے جبکہ اس کے سامنے ڈالے جانے والے چارے کی بھی جانچ نہیں کی جاتی ہے کہ وہ کتنا چارہ کھا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جس جانور کو 16 سے 18 لیٹر دودھ دینا تھا، وہ 10 لیٹر سے بھی کم دودھ دینے لگتا ہے۔ بعدازاں ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی اس کی دودھ دینے کی صلاحیت کم سے کم ہوتی جاتی ہے۔کراچی میں مجموعی طور پر روزانہ 45 لاکھ لیٹر دودھ کی پیداوار ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ شہرِ قائد میں کھلے دودھ کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ کراچی میں ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن دودھ کی فی لیٹر قیمت 155 روپے سے زیادہ بڑھانا چاہتے ہیں۔ ان کے مطابق دودھ کی قیمت کے 3 اہم جزو ہیں:پہلا: جانور کی خریداری پر آنے والی لاگت، جانور کی قیمت میں یومیہ کمی اور اموات، ٹیکس ملا کر فی جانور کا یومیہ خرچہ 522 روپے بنتا ہے۔دوسرا: فارم کی منیجمنٹ پر آنے والی لاگت، یوٹیلیٹی بلز، ویکسینیشن اور پانی کی یومیہ لاگت 139.55 روپے بنتی ہے جبکہ دودھ دینے والے جانور پر خوراک کا یومیہ خرچہ 549 روپے بتایا جاتا ہے۔اس طرح ایک دودھ دینے والے جانور پر یومیہ 1241 روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک دودھ دینے والے جانور پر ہونے والے اخراجات کے عوض اس سے اوسطاً 8 لیٹر دودھ حاصل کیا جاتا ہے۔ ان تمام اخراجات کو دودھ کی مقدار سے تقیسم کیا جائے تو دودھ کی قیمت 155 روپے بنتی ہے۔ تاہم سندھ لائیو اسٹاک نے کراچی شہر کے لیے دودھ کی فی لیٹر قیمت کا تخمینہ 133روپے لگایا ہے۔تیسرا: ایک اور معاملہ جو دودھ کی قیمت میں اضافے کا سبب ہے، وہ نہ صرف دودھ کی جانوروں کی سپلائی چین کو بُری طرح متاثر کررہا ہے بلکہ گوشت کی سپلائی چین پر بھی اثر انداز ہو رہا ہے۔ بھینس کالونی کراچی میں ایک دودھ دینے والے جانور سے 270 دن تک دودھ لیا جاتا ہے۔ جس کے بعد اسے ذبح ہونے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ نیلی پری کی طرح بھینس کالونی میں جانوروں کو لانے کے بعد ایک ہی سنگل سے 270 روز تک باندھ کر دودھ حاصل کرنے کے بعد قصاب کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن کے سربراہ شاکر عمر گجر کے مطابق کراچی میں سالانہ 14 لاکھ جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے جن میں بڑی تعداد دودھ دینے والی گائیں، بھینسوں اور نومولود کٹوں کی ہوتی ہے۔ ملک بھر میں بھینس اور گائیں کے بچوں کی شرح اموات 30 فیصد ہے جبکہ کراچی میں 80 فیصد بچے پیدائش کے بعد مرجاتے ہیں۔نوجوان بھینس کو اکثر و بیشتر کم عمری میں ہی قصاب کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ اگر بھینس گائیں کو قبل از وقت ذبح نہ کیا جائے تو وہ 7 سے 8 برس تک دودھ دے سکتی ہیں۔ تاہم اس کو محض ایک سال سے بھی کم عرصے میں ذبح کردیا جاتا ہے۔ اگر یہ عمل جاری رہا تو ملک میں دودھ دینے والے جانوروں کی قلت پیدا ہوسکتی ہے۔کراچی میونسپل کارپوریشن کے 1975ء میں بننے والے بائی لاز میں کارآمد جانوروں کو ذبح کرنا جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس وقت کراچی کی کیٹل مارکیٹ میں 7 سے 8 لاکھ دودھ دینے والے جانور موجود ہیں۔ جن میں سے 4 لاکھ صرف بھینس کالونی میں ہیں۔ شہر میں دودھ دینے والے جانور ایک پورا سال بھی باڑے میں نہیں گزار پاتے ہیں۔ تقریباً 272 دنوں بعد جب بھینس یا گائے کا لیکٹیشن دورانیہ ختم ہوتا ہے تو کسان اس جانور کو قصاب کے حوالے کرکے ان کی جگہ نیا جانور باندھ دیتا ہے اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔آخر کیا وجہ ہے کہ دودھ فروش کیٹل فارمرز کٹوں کو پالنے کے بجائے انہیں قصاب کے حوالے کردیتے ہیں؟اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اگر ایک لیٹر دودھ ایک وقت میں کٹا یا بچہ پی جائے گا تو انہیں 155 روپے کا خسارہ ہوگا۔ اگر ہر فارمر 3 سے 4 بچھڑوں کو پالے تو اس کو یومیہ 3 سے 4 لیٹر دودھ کی ضرورت ہوگی۔ اکثر فارمر اس کام میں اپنا نفع نقصان دیکھتا ہے۔ فارمرز صرف اور صرف دودھ کی فروخت پر توجہ دیتے ہیں۔وفاقی حکومت کی ہدایات پر لائیو اسٹاک ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ نے ان بچھڑوں کی حفاظت کے لیے سیو دی کاف کے نام سے پروگرام شروع کیا ہے۔ اس منصوبے سے وابستہ ڈاکٹر محسن کنانی کہتے ہیں کہ ’ملک بھر میں 30 فیصد اور کراچی میں 80 فیصد بچھڑے ذبح کردیے جاتے ہیں۔ یہ پروگرام 2023ء تک جاری رہے گا جس کے تحت مجموعی طور پر 4 لاکھ بچھڑوں کو بچانے کا ارادہ کیا گیا ہے۔ اس مقصد کے لیے فی جانور 6500 روپے کی سبسڈی کے علاوہ دیگر مراعات بھی دی جارہی ہیں‘۔مگر سندھ اور بلوچستان میں اس طرح کے اقدامات نظر نہیں آرہے۔پاکستان میں دودھ کی پیداواری لاگت دیگر ملکوں سے بہت زیادہ ہے اور دودھ بھی مہنگا بکتا ہے۔ فارمرز اپنا منافع بڑھانے کے لیے قیمت میں اضافہ کرتے ہیں مگر انہیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ اگر جانوروں کی پیداوار بڑھائی جائے تو اس طرح انہیں زیادہ فائدہ ہوگا اور دودھ کی لاگت بھی کم ہوگی۔دنیا کے مختلف ملکوں میں ڈیری کے کاروبار سے وابستہ فریزلینڈ کمپنیاں اینگرو پاکستان کے ڈاکٹر ناصر سے رابطہ کیا تو انہوں نے بھی یہ تسلیم کیا کہ ’پاکستان میں دودھ کی پیداواری لاگت دیگر ملکوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ پاکستان میں قیمتوں کو بڑھا کر کاروبار کو منافع بخش بنانے کا رجحان پایا جاتا ہے جبکہ دنیا بھر میں جدید اصولوں کی بنیاد پر کاروباری لاگت کم کرکے اور جانوروں کی پیداواری صلاحیت بڑھا کر منافع بڑھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایک جانور سے یومیہ جتنا دودھ حاصل ہوتا ہے وہ دنیا بھر کی ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے‘۔ان کے مطابق ’چارے کی سال بھر مناسب قیمت پر عدم دستیابی دودھ کی پیداوار اور لاگت سے جڑا ایک اہم مسئلہ ہے۔ دودھ دینے والے جانوروں خاص طور پر مقامی نسلوں کو جنیاتی طور پر بہتر بنانا ایک ضروری عمل ہے جو پاکستان میں تقریباً ناپید ہے۔ اگر ہم طویل عرصے کی درست منصوبہ بندی کریں تو جینیاتی طور پر دودھ دینے کے لیے تیار کیے گئے جانوروں کا استعمال ہی دودھ کی پیداوار میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا‘۔وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’دودھ کی پیداوار بڑھانے کے لیے دو طرفہ حکمتِ عملی تیار کرنی ہوگی جس میں ایک طرف روایتی کسانوں کے لیے بنیادی آگاہی، خدمت اور آسان قرضوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور دوسری طرف سرمایہ کاروں کو کمرشل یا کارپوریٹ فارمنگ کی جانب راغب کرنے کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں‘۔فارمنگ کے لیے سازگار تجارتی اور کاروباری ماحول فراہم کرنے میں حکومت کا کردار نہایت ہی اہمیت کا حامل ہے تاکہ اس شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو۔اب ہم چلتے ہیں پنجاب کے شہر ساہیوال جہاں راؤ محمد عثمان نے ایک جدید کیٹل فارم بنایا ہوا ہے۔ عثمان پیشے کے لحاظ سے سافٹ ویئر انجینیئر ہیں۔ وہ نہ صرف دودھ دینے والے جانوروں کو عالمی معیار کے مطابق پال رہے ہیں بلکہ اپنی تعلیم کو بھی اس پیشے میں استعمال کررہے ہیں۔ وہ فارم سے متعلق ہر چیز کا کمپیوٹرائزڈ ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں جس سے انہیں اپنے فارم کو بہتر انداز سے چلانے میں بہت مدد مل رہی ہے۔راؤ محمد عثمان کا کہنا ہے کہ ’وہ معیاری اصولوں کے مطابق اپنے تمام جانوروں کو پال رہے ہیں۔ دودھ دینے والے جانوروں کو صاف ماحول، اندھیرے یا تنگ کمروں میں بند کرنے کے بجائے کھلے ہوادار اور صاف ستھری جگہ پر رکھا جاتا ہے۔ انہیں سنگل سے باندھنا ٹھیک نہیں ہے۔ جانور کے سامنے 24 گھنٹے چارہ (خوراک) اور پانی ڈالا جاتا ہے۔ دن میں 3 سے 4 مرتبہ پیدا ہونے والے گوبر کی ٹریکٹر سے صفائی کی جاتی ہے۔ شیڈ میں جراثیم اور حشرات کش ادویات کا اسپرے کیا جاتا ہے‘۔وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’جانوروں کو موسم کی مناسبت سے غذا دی جاتی ہے۔ سردیوں میں مولیسس کو بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی دھیان رکھا جاتا ہے کہ جانوروں نے یومیہ بنیادوں پر کتنا چارہ کھایا ہے؟ اور اگر کھرلی میں باقی بچے ہوئے چارے کی مقدار بڑھنے لگے تو اس شیڈ میں موجود جانوروں کی جانچ کی جاتی ہے‘۔عثمان کا کہنا ہے کہ ’دودھ دینے والے جانور کو اچھی خوراک اور آرام دہ ماحول دینا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر جانور کو اچھا ماحول نہیں ملا اور اس کو کیڑے مکوڑے اور دیگر چیزوں سے بے آرامی رہی تو اس کی دودھ کی پیداوار کم ہوجائے گی‘۔سب سے اہم سوال یہ ہے کہ دودھ کتنے روپے لیٹر پڑتا ہے؟ اس سوال کا جواب عثمان نے یوں دیا کہ ’انہیں تمام تر یومیہ اخراجات نکال کر فارم پر فی لیٹر دودھ 65 روپے میں پڑتا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ فارم پر موجود جانور کو اچھا ماحول اور خوراک دی جاتی ہے۔ سب سے کم ایلڈ (کم پیداوار) والے جانور یومیہ 26 سے 28 لیٹر تک دودھ دیتے ہیں جبکہ بعض جانور یومیہ 45 لیٹر تک دودھ دیتے ہیں‘۔عثمان اپنے فارم پر دودھ کی یومیہ بنیادوں پر جانچ کرتے ہیں اور ہر جانور کے دودھ کی جانچ کرکے ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں۔ اگر دودھ میں کسی قسم کی بیماری کے اثرات کا پتا چلے تو اس کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہفتہ وار جانوروں کے خون کے نمونے بھی لیے جاتے ہیں۔بے چاری نیلی پری کے مالک نے اس کو 270 دن کے لیکٹیشن کے بعد فروخت کردینا ہے مگر عثمان کے فارم پر معاملہ الگ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’وہ اپنے جانور سے سالانہ 305 دن یعنی بھینس کالونی کی بھینس کے مقابلے میں 35 اضافی دن دودھ لیتے ہیں اور جس گائیں کو بچے کی پیدائش کے لیے تیار کرنا ہو اس کی خوراک میں کمی کی جاتی ہے۔ پھر اس کو قدرتی نظام گزارا جاتا ہے اور کم از کم 5 مرتبہ اس عمل کو دہرایا جاتا ہے اور 7 سال بعد بھلے ہی جانور دودھ دینے کے قابل ہو لیکن اس کو فروخت کردیا جاتا ہے۔ ایک جانور 7 سال میں دودھ دینے کے علاوہ 5 سے 7 بچھڑے بھی دے جاتا ہے۔دوسری جانب نومولود بچھڑیوں کو فارم پر پالا جاتا ہے اور یہ جانور ریٹائر ہونے والے جانوروں کی جگہ لیتے رہتے ہیں اور اس طرح ایک سائیکل چلتا رہتا ہے۔ یوں فارم کے لیے نئے جانور خریدنے نہیں پڑتے ہیں۔عثمان کے مطابق ’گائیں کے بچھڑوں کو پالنا ایک مشکل کام ہے اور انہیں روزانہ کی بنیاد پر دودھ فراہم کرنا پڑتا ہے اور پیدائش کے 90 دن تک ان پر ڈیڑھ لاکھ روپے خرچہ ہوتا ہے جبکہ ان جانوروں کو دودھ دینے کے قابل بنانے تک خرچہ ڈھائی لاکھ روپے تک آجاتا ہے‘۔کراچی کی بھینس کالونی اور ساہیوال کے عثمان کے پاس دودھ کی پیداوار کے حوالے سے اپنائے جانے والے طریقہ کار کو آپ کے سامنے رکھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جس طرح دودھ دینے والے جانوروں کو بھینس کالونی میں رکھا جارہا ہے اور کسی طور بھی جدید طریقہ کار کو نہیں اپنایا جارہا ہے اس سے ہر چند ماہ بعد یا تو شہر میں دودھ کی قیمت کو بڑھانا پڑے گا یا پھر حکومت کو اس عمل میں مداخلت کرتے ہوئے کسانوں کو دودھ کی پیداوار کے نظام کو اپ گریڈ اور جدید بنانے کے حوالے سے معاونت کرنی ہوگی تاکہ دودھ کی قیمت کو کم کیا جاسکے۔پاکستان میں فوڈ سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے کسانوں، حکومت، مِلک پراسیسرز کو متحد ہوکر کام کرنا ہوگا تاکہ جانوروں کی ایلڈ کو بڑھایا جاسکے۔ اس حوالے سے حکومت کو آگے بڑھتے ہوئے قلیل و طویل مدتی پالیسیاں ترتیب دینی ہوں گی۔ اس پالیسی کو تیار کرنے میں اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت بھی ضروری ہے۔ یہ وقت دودھ کے معیار جانچنے، دودھ کی ہینڈلنگ اور کولڈ چین کے قیام کے حوالے سے اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔

راجہ کامران 


مری میں پاک فوج کا ریسکیو آپریشن، تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کیلئے کلیئر کردیا گیا

 راولپنڈی :مری میں پاک فوج کا ریسکیوآپریشن جاری ہے،شدید برفباری سے متاثرہ سیاحتی مقام مری کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کیلئے کلیئر کر دیا گیا، جھیکاگلی ،ایکسپریس وے، گھڑیال اوربھوربن کی سڑکیں بحال کردی گئیں جبکہ کلڈنہ سےباڑیاں تک بحالی کا کام مسلسل جاری ہے ۔پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر)کے مطابق مری میں پاک فوج کا ریسکیو آپریشن جاری ہے، مختلف مقامات پرامدادی اور رہائشی کمپس فعال ہیں، ایک ہزار سے زائد پھنسے افراد کوکھانا فراہم کیا گیاہے۔آئی ایس پی آرکےمطابق جھیکاگلی، کشمیری بازار،لوئرٹوپہ اورکلڈنہ میں ایک ہزار سے زائد افراد کو کھانا فراہم کیا گیا ہے ، ملٹری کالج مری، سپلائی ڈپو، اے پی ایس اورآرمی لاجسٹک اسکول میں پناہ اورخوراک فراہم کی جارہی ہے،اب تک 300 افراد بشمول بچوں کوآرمی ڈاکٹرزوپیرامیڈکس نےطبی امداد فراہم کی گئی۔مری کے متاثر علاقوں میں ریسکیوو ریلیف آرپریشن جاری ہے،جھیکاگلی سےایکسپریس وے اورجھیکاگلی سے کلڈنہ تک کا راستہ کھل دیا گیاہے ۔گھڑیال سے بھوربن کی سڑک سے بھی برف ہٹا دی گئی ہے ،سڑکوں پر پھسلن کے باعث احتیاط برتی جارہی ہے جبکہ کلڈنہ سےباڑیاں کے درمیان راستے کھولنے کیلئے انجینئرزاورکلیئرنس مشینری مسلسل کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

مری کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کیلئے کلیئر کر دیا گیا

شدید برفباری سے متاثرہ سیاحتی مقام مری کی تمام اہم شاہراہوں کو ٹریفک کیلئے کلیئر کر دیا گیا ہے، رات گئے پولیس اورانتظامیہ نے 600سے 700پھنسی گاڑیوں کو برف سے نکالا۔ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق شدید برفباری کی وجہ سے مری کی بڑی شاہراہوں پر 20 سے 25 بڑے درخت گرے،جس سے راستے بلاک ہوگئے تھے۔مری سے رات گئے 600 سے 700 گاڑیوں کو نکالا گیا اور سیاحوں کو محفوظ مقامات پرپہنچا،24 گھنٹوں کے دوران 500 سے زائد فیملیز کو ریسکیو کرکے محفوظ مقام پرپہنچایا گیا۔جھیکا گلی سے لوئر ٹوپہ ایکسپریس ہائی وے اور جھیکا گلی سے لارنس کالج روڈ کو ٹریفک کیلئے کلیئرکر دیا گیا ہے۔گلڈنہ سے آر ایم کے روڈ کو بھی رات گئے کلیئر کردیا گیا تھا تاہم اسلام آباد،راولپنڈی اور خیبرپختونخوا سے مری جانے والی ٹریفک کا داخلہ آج بھی بند رہے گا، اضافی نفری اور بھاری مشینری کو ہنگامی بنیادوں پر مری پہنچایا گیا ہے۔کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے مری کے تمام سرکاری اور نجی اسپتالوں میں بھی عملہ الرٹ ہے۔دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدارآج مری جائیں گے،عثمان بزدار برفباری سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کریں گے۔

سانحہ مری میں جاں بحق 22افراد کی میتیں آبائی علاقوں میں پہنچا دی گئیں

سانحہ مری میں جاں بحق 22افراد کی میتیں آبائی علاقوں میں پہنچا دی گئیں،جاں بحق افراد کی نماز جنازہ آج مختلف علاقوں میں ادا کی جائے گی۔سانحہ مری پر پورا ملک سوگوار ہے وہی سیاحتی مقام مری میں پیش آنے والے المناک سانحے میں لقمہ اجل بننے والوں کی میتیں ان کے آبائی علاقوں میں پہنچادی گئی ہیں۔اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی نوید اقبال سمیت خاندان کے 8افراد کی میتیں گزشتہ روز اسلام آباد منتقل کی گئیں تھیں ،جن میں نوید اقبال ، 3بیٹیاں ، ایک بیٹا،بہن ،بھانجھی اوربھتیجے شامل ہیں۔اے ایس آئی نویداقبال سمیت خاندان کے 8 افراد کی نماز جنازہ آج ڈھائی بجے تلہ گنگ کے موضع دودیال میں ادا کی جائےگی۔مری سانحےمیں راولپنڈی کے ایک ہی گھرکے6 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے،جن میں محمد شہزاد ،اہلیہ سائمہ شہزاد ،2بیٹےاور2بیٹیاں شامل ہیں ، ان کی نمازجنازہ دوپہر2بجے راول پارک میں ادا کی جائے گی۔سانحہ مری میں برفباری کے دوران جاں بحق ہونےوالےلاہور اور کامونکی کے 3دوستوں کی میتیں ان کے گھر پہنچا دی گئیں۔کامونکی سے تعلق رکھنے والے اشفاق اور لاہور کے رہائشی ظفراقبال اورمعروف اشرف کی میتیں علیٰ الصبح ان کے گھر پہنچائی گئی،میتیں پہنچے ہی گھرمیں کہرام برپا ہوگیا۔المناک سانحے پرعلاقے کی فضا سوگواراورہرآنکھ اشکبارہے، ظفر اقبال اور معروف اشرف کی نمازجنازہ لاہورمیں جبکہ اشفاق کی کامونکی میں بعد نماز ظہر ادا کی جائے گی۔ظفراقبال اورمعروف جمعرات کی رات کامونکی کے دوست اشفاق کے ساتھ سیرو تفریح کیلئےمری گئےتھے۔اہلخانہ کے مطابق تینوں دوست لاہورکی ایک ہی کمپنی میں ملازم تھے، ظفراقبال 4جبکہ اشفاق 2بچوں کا باپ تھا۔مری میں جاں بحق 4دوستوں کی نماز جنازہ مرادن میں ادا کی جائےگی، سہیل خان، بلال حسین،اسد اورمحمد بلال کی میتیں رات گئے آبائی علاقوں کو پہنچائی گئی تھیں۔خاندانی ذرائع کے مطابق سہیل خان کی نمازجنازہ صبح 11 بجے میاں عیسیٰ میں ادا کی جائےگی۔اس کے علاوہ محمد بلال کی نمازجنازہ دوپہر 2 بجے چرچوڑ میں ادا کی جائےگی جبکہ اسد اوربلال حسین کی نمازجنازہ3 بجےتازہ گرام میں ادا کی جائےگی۔

سانحہ مری کے سوگ میں آزاد کشمیرمیں سیاحتی سرگرمیاں معطل

سانحہ مری کے سوگ میں آزاد کشمیرمیں سیاحتی سرگرمیاں معطل کردی گئی ہیں جبکہ برفباری سے متاثرہ علاقوں میں سیاحوں کو جانے سے روک دیا گیا ۔وادی نیلم میں جاری دوروزہ نیلم سنوفیسٹیول ملتوی کردیا گیا جبکہ کیرن کے مقام پر سانحہ مری میں جاں بحق ہونے والوں کیلئے دعا کی گئی۔فیسٹیول کے شرکاء ،م علاقہ مکینوں اورسیاحوں نے جاں بحق سیاحوں کے بلند درجات کیلئے فاتحہ خوانی کی جبکہ ایک منٹ کی خاموش اختیارکرنے کے علاوہ شمعیں بھی روشن کی گئیں ۔محکمہ سیاحت نے آزادکشمیر کے شدید برفباری والے علاقوں میں سیاحوں کو جانے سے روک دیا ۔آزاد کشمیرپولیس بھی مری گلیات میں جاری ریسکیوآپریشن میں حصہ لے رہی ہے، آزاد کشمیر پولیس اور سٹیٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی ٹیمیں امدادی سرگرمیوں کا حصہ ہیں ۔


Thursday, 6 January 2022

وزیراعظم نے چیئرمین نیب کو کسی بھی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیش ہونے سے روک دیا

 


 پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین رانا تنویر حسین کی زیر صدارت پی اے سی کا ان کیمرہ اجلاس ہوا، جس میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال پیش نہ ہوئے۔نور عالم خان نے کہا کہ یہ اجلاس چیئرمین نیب کے کہنے پر ہی بلایا گیا تھا اور ان کیمرہ کیا تھا، اب اچانک نیب کی جانب سے لیٹر آیا ہے کہ پرنسپل اکاونٹنگ آفسر بدل گئے ہیں، جب کہ لیٹر میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم و کابینہ نے اس کی منظوری دی ہے۔پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان کا کہنا تھا کہ گزشتہ اجلاس میں چیئرمین نیب نے ریکوریز پر پی اے سی ان کیمرا اجلاس مانگا تھا، چیئرمین نیب سے ہم نے ریکوریز کے اعداد و شمار مانگے تھے، چیئرمین نیب نے کہا تھا وہ خود آ کر ریکوریز کے اعداد و شمار پیش کرے گے،ابھی ہمیں ایک لیٹر دکھایا گیا ہے کہ پرنسپل اکاونٹنگ آفیسر بدل گئے ہیں۔نوید قمر نے کہا کہ چیئرمین نیب پارلیمان کے سامنے جوابدہ نہیں ہونا چاہتے، چیئرمین نیب چاہتے ہیں سب ان کے سامنے جوابدہ ہوں، وہ خود کسی کے سامنے پیش نا ہوں،  وفاقی کابینہ کے پاس اختیار نہیں کہ وہ چیئرمین نیب کو پی آے سی میں آنے سے منع کرے۔دوسری جانب پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال میں پیش نہ ہونے کی وجہ سامنے آگئی ہے،  نیب نے وزیر اعظم کے حوالے سے سیکرٹری اسمبلی کو خط لکھا کہ وزیر اعظم نے چیئرمین نیب کی جگہ ڈی جی نیب کو بریفنگ دینے کی منظوری دی ہے، اور کہا ہے کہ چیئرمین نیب پی اے سی سمیت کسی بھی قائمہ کمیٹی، آئینی ادارے اور خود مختاری اداروں کے سامنے بطور پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر پیش نہیں ہوں گے، چیئرمین نیب کی نمائندگی ڈی جی نیب تمام کمیٹیوں میں کیا کریں گے۔اس حوالے سے چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حسین نے کہا کہ نیب کے خط کی وضاحت کے لئے کابینہ ڈویژن کو خط لکھیں گے، اگر قواعد وزیر اعظم کو چیئرمین کی جگہ ڈی جی کو نمائندگی کا اختیار دیتے ہیں تو تسلیم کریں گےِ چیئرمین نیب کو آنا چاہئے تھا۔چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی پوزیشن اور ہے اور چیئرمین نیب کی اور ہے، چیف نیب کی پوزیشن یکسر مختلف اور قابل احتساب ہے، اگر حکومت اسے جوابدہ نہ بنائے تو یہ زیادتی ہوگی، جو پیسے چیئرمین نیب نے اپنے دور میں خرچ کئے ہیں اسے اس کا حساب دینا ہوگا، کیبنٹ سیکرٹری ٹیلفونک و تحریری طور پر آگاہ کرے کہ کیا یہ قانون کے مطابق نوٹیفکیشن کیا گیا ہے، اگر ایک بندہ وزیراعظم کو بہت عزیز ہے تو انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے۔

Dhanak Rang lahore

Magazine DRL

حکومت کا منی بجٹ کی منظوری کے لیے 10 جنوری کو قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا فیصلہ

 اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور بیرسٹر بابر اعوان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 10 جنوری کی شام 4 بجے بلانے کی سمری بھجوا دی ہے، اجلاس میں فنانس ایکٹ ترمیمی بل پیش کیا جائے گا، جب کہ سینیٹ کی فنانس ایکٹ ترمیمی بل پر تجاویز کو زیرغور لایا جائے گا۔بابر اعوان کا کہنا تھا کہ حکومت قوم اور عام آدمی کی بہتری کے لئے قانون سازی کا عمل رکنے نہیں دے گی، اپوزیشن کو دعوت ہے کہ وہ قانون سازی میں عملی طور پر حصہ لے، ایوان میں نعرے بازی سے اپوزیشن قانون نہیں بنا سکتی، ہم قانون سازی اپوزیشن کے ہنگامہ آرائی سے نہیں رکنے دیں گے، قانون سازی پر مذاکرات کے لئے دروازے کھلے ہیں۔


جوڈیشل کمیشن نے جسٹس عائشہ کی سپریم کورٹ میں تقرری کی سفارش کردی

 اسلام آباد: جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) نے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ اے ملک کی سپریم کورٹ میں تقرری کی سفارش کردی ہے۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس قاضی فائیز عیسی اور جسٹس سردار طارق سمیت دیگر ممبران نے شرکت کی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے جے سی پی کے اجلاس کی صدارت کی اور جسٹس عائشہ ملک کی ترقی کو 4 کے مقابلے 5 ووٹوں کی اکثریت سے  منظور کیا۔جوڈیشل کمیشن کی جانب سے جسٹس عائشہ ملک کے نام کی سفارش کے بعد مذکورہ معاملہ حتمی منظوری کے لیے پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کو بھیج دیا گیا ہے۔جے سی پی کی سفارش کے بعد جسٹس عائشہ ملک سپریم کورٹ میں ملک کی پہلی خاتون جج بن جائیں گی۔یہ دوسرا موقع ہے کہ جے سی پی نے جسٹس عائشہ ملک کی ترقی پر فیصلہ کرنے کے لیے اجلاس کیا۔گزشتہ سال 9 ستمبر کو جے سی پی کی ایک توسیعی اجلاس کے دوران اتفاق رائے کی کمی نے کمیشن کو اس کی ترقی کو مسترد کرنے پر مجبور کیا تھا۔دوسری جانب پاکستان بار کونسل کی جانب سے وکلا نے ملک گیر ہڑتال کی ہڑتال کے موقع پر سپریم کورٹ میں پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی تاہم سپریم کورٹ میں وکلا معمول کے مطابق پیش ہوتے رہے۔


حکومت کے لیے آئندہ 3 ماہ انتہائی اہم ہیں، وزیراعظم

  اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر اپنی حکومت کیلئے آئندہ تین ماہ کو اہم اور احتساب نہ ہونے کو اپنی حکومت کی بڑی ناکامی قرار دے دیا۔وزیراعظم نے کہا کہ فوجی قیادت سے تعلقات مثالی نوعیت کے ہیں، نومبر دور ہے ،آرمی چیف کو مزید توسیع سے متعلق ابھی سوچا نہیں، اتحادیوں کے ساتھ ملکر حکومت کے پانچ سال مکمل کریں گے۔وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی ہے تو ضرور لے آئے، آرمی چیف کو مزید توسیع سے متعلق ابھی سوچا نہیں، نومبر کافی دور ہے، میرے فوجی قیادت کے ساتھ تعلقات مثالی نوعیت کے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کی سب سے بڑی ناکامی احتساب کا نہ ہونا ہے، تمام تر شواہد کے باوجود یہ لوگ بچ نکل رہے ہیں، شہباز شریف کے خلاف ٹھوس ثبوت موجود ہیں، کیا کوئی انکار کر سکتا ہے شہباز شریف نے کرپشن نہیں کی۔وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت کیلئے آئندہ 3 مہینے کافی اہم ہیں، مہنگائی کو کنٹرول کرنا ہوگا، خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کی وجہ سے پارٹی کو بہت نقصان ہوا، بلدیاتی انتخابات میں شکست پارٹی کی تنظیمی سطح پربڑی ناکامی ہے، اللہ کا شکر ہے ہمارے ووٹ بینک میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کی کارکردگی سے پوری طرح مطمئن ہوں، ہمارے بہت سے اچھے کاموں کی تشہیر نہیں ہو رہی، پاکستان کے چین اور امریکا دونوں کیساتھ اچھے تعلقات ہیں، اتحادیوں کے ساتھ ملکر حکومت کے پانچ سال مکمل کریں گے۔


کورونا کے پیش نظر مسجد الحرام میں داخلے کیلیے راستے مخصوص

 ریاض: حرمین شریفین کی جرنل پریزیڈنسی نے کورونا کے پیش نظر مسجد الحرام میں داخلے کے لیے 34 راستوں کو عمرہ زائرین کے لیے مختص کردیا۔سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) کی رپورٹ کے مطابق حرمین شریفین نے عمرہ ادائیگی کی درخواست دینے والے زائرین کے  لیے نیا ہدایت نامہ جاری کردیا۔عوامی اجتماع کو کنٹرول اور پلاننگ کرنے والی اتھارٹی کے سربراہ انجینئر ایمان فلمبان نے بتایا کہ نماز اوقات اور عمرہ ادائیگی کے دوران سماجی فاصلے کو یقینی بنانے کے لیے سخت اقدامات کیے جارہے ہیں تاکہ نمازیوں اور زائرین کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ مسجد الحرام آنے والے زائرین اور نمازیوں کو مقررہ روٹ، سماجی فاصلے اور ماسک کا استعمال لازمی کرنا ہوگا۔ ایمان فلمبان کا کہنا تھا کہ عمرہ سیزن کو جاری رکھنے کے لیے مزید اقدامات بھی کیے جائیں گے۔اتھارٹی سربراہ نے بتایا کہ زائرین کے طواف  کے لیے 34 راستے مختص کیے گیے ہیں، اسی طرح نمازیوں کو مخصوص دروازوں سے داخل ہونے اور مقررہ مقام پر نماز ادائیگی کی اجازت ہوگی اور وہ اس دوران مطاف میں نہیں آسکیں گے۔دوسری جانب جنرل پریزیڈنسی نے شہریوں اور نمازیوں کی درخواست پر مسجد نبوی ﷺ کی چھت کو آج 6 جنوری 2021 بروز جمعرات سے مغرب اور عشا کی نماز کے لیے کھولنے کا اعلان کیا ہے۔


محمد رضوان 2021 کے سب سے قیمتی کھلاڑی قرار


لاہور: قومی کرکٹ ٹیم کے وکٹ کیپر محمد رضوان سال 2021 کے سب سے قیمتی کھلاڑی کا ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے کلینڈر ایئر 2021 میں متاثر کن کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔محمد رضوان 2021 کے سب سے قیمتی کھلاڑی قرار



 پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے کلینڈر ایئر 2021 میں متاثر کن کارکردگی دکھانے والے کھلاڑیوں کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔کیلنڈر ایئر 2021 میں وکٹوں کے پیچھے 56 شکار کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیسٹ میں 455 رنز،  ون ڈے انٹرنیشنل میچز میں 134 رنز اور ٹی ٹوینٹی انٹرنیشنل میں ریکارڈ ساز 1326 رنز بنانے والے محمد رضوان کو سال کے سب سے قیمتی کھلاڑی کا ایوارڈ دیا گیا۔ایک روزہ میچ کے علاوہ محمد رضوان سال کے بہترین ٹی ٹوینٹی بلے باز کا ایوارڈ بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔پی سی بی نے 9 ٹیسٹ میچز میں 41 وکٹیں حاصل کرنے پر فاسٹ بولر حسن علی کو سال کا بہترین ٹیسٹ کرکٹر قرار دیا۔ انہوں نے اس سال ایک مرتبہ ایک اننگز میں 10 وکٹیں جبکہ پانچ بار ایک اننگز میں پانچ وکٹیں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دو پلیئر آف دی میچ اور ایک پلیئر آف دی سیریز کے ایوارڈز بھی اپنے نام کیے۔اکستان کے کپتان بابر اعظم کو 6 ون ڈے میچز میں 2 سنچریوں اور ایک نصف سنچری کی مدد سے 405 رنز بنانے پر ون ڈے کرکٹر آف دی ایئر کا ایوارڈ دیا گیا۔ٹی ٹوینٹی ورلڈکپ کے پہلے میچ میں بھارت کے خلاف فتح دلوانے میں اہم کردار ادا کرنے والے بولر شاہین شاہ آفریدی کے اسپیل کو سال کا متاثر کن کارکردگی ایوارڈ دیا گیا۔انہوں نے 24 اکتوبر 2021 کو ہونے والے میچ میں 31 رنز دے کر تین اہم بھارتی کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھائی تھی۔علاوہ ازیں محمد وسیم جونیئر کو 2021 میں 15 انٹرنیشنل میچز سمیت 45 وکٹیں لینے والے ابھرتے ہوئے کرکٹر آف دی ایئر،  ندا ڈار کو 604 رنز بنانے اور 25 وکٹیں لینے پر سال کی بہترین خاتون کرکٹر، صاحبزادہ فرحان کو پاکستان کپ میں 487 رنز، قومی ٹی ٹوئنٹی میں 447 رنز اور قائداعظم ٹرافی میں 935 رنز بنا کر ڈومیسٹک کرکٹر آف دی ایئر کا ایوارڈ دیا گیا۔

’بالی وڈ کے تینوں خانز کا دور اپنے اختتام کو پہنچ چکا‘

 ممبئی: بالی وڈ کے خود ساختہ فلمی ناقد کمال آر خان کا کہنا ہے کہ بھارتی فلم انڈسٹری کے تینوں خانز کا دور اب اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا لیکن بالی وڈ کے تینوں خانز (شاہ رخ خان، عامر خان، سلمان خان) اب بھی انڈسٹری پر راج کر رہے ہیں اور اس بات کا اندازہ باکس آفس کے اعداد و شمار سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کمال خان نے اپنے حالیہ بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ بالی وڈ کے تینوں خانز کا دور ختم ہوگیا، ان تینوں میں حد سے زیادہ گھمنڈ اور حسد ہے جس کا اب انہیں سامنا کرنا پڑے گا۔فلمی ناقد نے کہا ’وقت کسی کا نہیں ہوتا، وہ آتا ہے اور چلا جاتا ہے، مغل اور برطانیہ بھی اپنی حکمرانی ہندوستان میں برقرار نہیں رکھ سکے، اسی طرح تینوں خانز کا دور بھی اب ختم ہو چکا ہے۔‘کمال خان نے مزید کہا کہ اسلام بھی کہتا ہے کہ گھمنڈ اور حسد دو ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی تباہی کا باعث بنتی ہیں، یہ دونوں چیزیں ان تینوں خانز میں کثرت سے پائی جاتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی تباہ چکے۔گزشتہ روز فلمی ناقد نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ میں سلمان خان کا کیریئر ختم کر دوں گا اور تب تک نہیں رکوں گا جب تک یہ سپر اسٹار بالکل صفر نہیں ہو جاتا۔


اومیکرون کی علامات کیا ہیں اور یہ کووڈ کی دوسری اقسام سے کتنا خطرناک ہے؟

 پاکستان کی طرح دنیا بھر میں کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس کے پھیلاؤ کے سدباب کے لیے سخت نوعیت کے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے بتایا کہ گذشتہ تین سے چار ہفتوں میں پاکستان میں بھی وائرس کی نئی قسم کے پھیلاو میں تیزی آئی ہے۔ ان کے مطابق وائرس کی نئی قسم کے زیادہ تر کیسز، لگ بھگ ساٹھ فیصد، دو بڑے شہروں کراچی اور لاہور میں سامنے آئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عوام کو چاہیے کہ فورا کورونا کی ویکیسن لگوائیں اور جو افراد ویکسین لگوا چکے ہیں وہ تیسری خوراک (بوسٹر) لگوائیں۔اہم بات یہ ہے کہ وائرس کی یہ نئی قسم اب تک اتنی زیادہ مہلک اور جان لیوا تو ثابت نہیں ہوئی جس کا خطرہ تھا لیکن جس تیز رفتاری سے اس کا پھیلاؤ ہو رہا ہے، وہ ایک پریشان کن امر ہے۔ اسی لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ وائرس کی اس نئی قسم کی کیا علامات ہیں اور کیا یہ گذشتہ وائرس کی نسبت مختلف طریقے سے انسانی جسم پر اثر انداز ہوتی ہے؟اومیکرون کی علامات کیا ہیں؟گزشتہ 24 گھنٹوں میں انڈیا میں 90,000 سے زیادہ افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جس میں 26 سو سے زیادہ متاثرین میں اومیکرون کی تشخیص ہوئی ہے۔ انڈیا کی ویکسین ٹاسک فورس کے سربراہ ملک میں وبا کی تیسری لہر شروع ہونے کی تصدیق کی ہےاب تک کی تحقیق اور منظر عام پر آنے والی معلومات کے مطابق جب اومیکرون کسی بھی شخص پر حملہ آور ہوتا ہے تو شروع شروع میں ایسا لگتا ہے کہ متاثرہ فرد کو نزلہ یا زکام ہے، کیوںکہ اس وائرس کے لاحق ہونے کی ابتدائی علامات کچھ ایسی ہی ہیں۔ دیگر عام علامات میں گلے میں خراش، ناک کا بہنا اور سر درد شامل ہیں۔کیا پاکستان میں اومیکرون وائرس کی قسم کی علامات دنیا کے دیگر ممالک سے مختلف ہیں یا ویسی ہی ہیں؟ یہ سوال بی بی سی نے سندھ کی وزیر صحت سے کیا جہاں سب سے پہلے پاکستان میں اومیکرون کا کیس سامنے آیا تھا۔ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے بتایا کہ اب تک یہی دیکھا گیا ہے کہ اومیکرون کی علامات نسبتا ہلکی اور فلو جیسی ہیں جو کورونا وائرس کی دیگر اقسام سے زیادہ مختلف نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اِن علامات میں ناک کا بہنا، کھانسی اور بخار شامل ہیں۔ڈاکٹر عذرا کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ اومیکرون کس حد تک کسی کو متاثر کرتا ہے اس کا انحصار کافی حد تک اس بات پر ہے کہ کیا متاثرہ شخص نے کورونا کی ویکیسن لگوا رکھی ہے یا نہیں اور آخری ویکیسن لگوائے کتنا عرصہ گزر چکا ہے۔اومیکرون سے قبل منظر عام پر آنے والی کورونا وائرس کی دیگر اقسام میں ایک اہم علامت یہ تھی کہ متاثرہ مریض کو شکایت ہوتی تھی کہ اس کی سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت ختم ہو چکی ہے یعنی نا تو کسی کھانے کا ذائقہ آتا تھا اور نا ہی کسی قسم کی خوشبو یا بدبو کا احساس ہوتا تھا۔ یہ ایک اہم نشانی تھی جس سے معلوم ہو سکتا تھا کہ یہ کورونا وائرس ہی ہے۔لیکن اومیکرون میں یہ علامات اس شدت سے ظاہر نہیں ہوتیں۔ پرانے وائرس میں مریض کو کھانسی اور بخار کی علامات بھی ظاہر ہوتی تھیں۔ ماہرین کے مطابق اومیکرون میں یہ علامات بھی اتنی حد تک عام نہیں لیکن اب تک عالمی اور سرکاری سطح پر کورونا وائرس کی سب سے بڑی تین علامات یہی ہیں کہ مریض کو کھانسی اور سر درد کے ساتھ ذائقے اور سونگھنے کی حسوں میں کمی محسوس ہو گی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب تک اومیکرون وائرس سے متعلق اعداد و شمار پر تحقیق کی کمی ہے۔زلہ زکام اور اومیکرون میں کیسے تفریق کی جائے؟زوئی کووڈ ایپ نے سینکڑوں افراد سے یہ سوال کیا کہ ان میں کورونا کی کیا علامات ظاہر ہوئیں اور بعد میں ان کو کون سے وائرس کی تشخیص ہوئی۔ ماہرین نے ان اعداد و شمار کا جائزہ لے کر یہ بتایا کہ کسی کو بھی ان پانچ اہم علامات پر نظر رکھنی چاہیے جن میں ناک کا بہنا، سر درد، تھکاوٹ، گلے میں خراش اور چھینکیں آنا شامل ہیں۔اگر یہ علامات ظاہر ہوں تو فوری طور پر اپنا ٹیسٹ کروانا چاہیے تاکہ کورونا وائرس کی تشخیص اور تصدیق ہو سکے۔ جس کے بعد ہی یہ معلوم کیا جا سکے گا کہ وائرس کی کون سی قسم نے متاثر کیا ہے۔ڈیلٹا اور اومیکرون: وائرس کی کون سی قسم زیادہ خطرناک ہے؟



اب تک ماہرین کا ماننا ہے کہ اومیکرون وائرس کورونا کی کسی بھی پرانی قسم بشمول ڈیلٹا سے زیادہ تیزی سے پھیلا ہے۔ لیکن مثبت بات یہ ہے کہ اومیکرون کی اس خصوصیت کے باوجود اس نے لوگوں کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا ڈیلٹا نے کیا تھا۔اسی وجہ سے اومیکرون سے متاثرہ افراد کو ہسپتال میں داخلے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔ اس کی کئی وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ ایک اندازہ یہ ہے کہ اومیکرون پرانے وائرس کی اقسام کی طرح پھیپھڑوں پر اثر انداز نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مرض میں شدت نہیں آتی اور یہ اتنا زیادہ مہلک نہیں رہتا۔دوسری جانب جہاں گذشتہ دو سال کے دوران طب کے شعبے نے وائرس سے نمٹنے کے لیے کسی حد تک اپنے آپ کو تیار کر لیا ہے وہیں کورونا وائرس کی ویکسین کے عام ہونے سے بھی فرق پڑا ہے۔کیمبرج یونیورسٹی کی جانب سے کی گئی ایک دوسری تحقیق میں پتا چلا ہے کہ وائرس کی قسم ڈیلٹا کے مقابلے میں اومیکرون سے متاثر ہونے کی صورت میں ایمرجنسی یا ہسپتال کے وارڈ میں داخلے کا امکان نصف ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا ہے کہ ڈیلٹا کے مقابلے صرف اومیکرون کی صورت میں ہسپتال داخلے کا خطرہ ایک تہائی ہے۔’ویکیسن کی تیسری خوراک بچاو کا بہترین طریقہ ہے‘یو کے ایچ ایس اے میں چیف میڈیکل ایڈوائزر سوزین ہاپکنز کا کہنا ہے کہ یہ ڈیٹا ان حوصلہ افزا اشاروں کی تائید کرتا ہے جو ہم نے دیکھے ہیں۔تاہم ان کا کہنا ہے کہ ابھی کسی نتیجے پر پہنچنا قبل از وقت ہو گا کہ ڈیلٹا کے مقابلے اومیکرون کی وجہ سے لوگ کس حد تک بیمار ہونے کے بعد ہسپتال لائے جاتے ہیں۔انھوں نے مزید کہا کہ 'اومکیرون کے پھیلنے کی شرح زیادہ ہے اور انگلینڈ میں 60 سال کی عمر کے متاثرین بڑھ رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آنے والے ہفتوں میں این ایچ ایس پر دباؤ بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں۔انھوں نے بتایا کہ 'ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ ویکسین کے لیے آنا، خاص کر تیسری خوراک کے لیے، اس انفیکشن اور شدید بیماری سے خود کو اور دوسروں کو بچانے کا بہترین طریقہ ہے۔واضح رہے کہ پاکستان میں کورونا کے خلاف ویکیسن کی تیسری خوراک کی سہولت موجود ہے اور اسے 30 سال سے زائد افراد کسی بھی ویکیسن سینٹر جا کر حاصل کر سکتے ہیں۔



Wednesday, 5 January 2022

نیپرا نے بجلی ایک روپے 7 پیسے مزید مہنگی کرنے کی منظوری دے دی

 نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے کراچی کے صارفین کیلئے بجلی ایک روپے7 پیسے مہنگی کرنے کی منظوری دے دی۔بجلی اکتوبر کی فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مہنگی کی گئی ہے۔ صارفین سے یہ اضافہ جنوری کے بلوں میں وصول کیا جائے گا۔بجلی کی قیمت میں اس اضافے کا اطلاق لائف لائن صارفین پر نہیں ہوگا۔خیال رہے کہ کراچی کے صارفین دسمبر کے بلوں میں ستمبر کی فی یونٹ پونے4 روپے ایڈجسٹمنٹ بھی ادا کررہے ہیں۔